رقم طے کرکے زمین ٹھیکے پر دینا کیسا؟

زمین کے ٹھیکہ میں رقم مخصوص کرکے لینا

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

زمین اس طرح ٹھیکے پر دینا کہ زمین میں جو چاہیں کاشت کریں، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں، بس ہمیں سال کے یا جو بھی مدت طے ہے، اس وقت تک کے اتنے پیسے دینے ہیں، زمین دینے والا پیسے لے لیتا ہے اور زمین لینے والا، اتنے عرصے تک اس میں کاشت کرتا ہے، کیا یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بیان کردہ صورت زمین کو اجرت پر دینے کی ہے، اگر اجارے کی شرائط پائی جائیں مثلا اجارے کی مدت طے ہو اور اجرت والی رقم متعین ہو اور زمین میں کس چیز کی کاشت کرنی ہے، یہ بھی بیان ہوجائے یا تعمیم کردی جائے کہ جوچاہوکاشت کرو، تو زمین کو رقم کے بدلےاجرت پر دینا شرعا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔

اس طرح ٹھیکے پر زمین لینے کا جواز احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اس پر عمل رہا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے

”عن رافع بن خديج، قال: حدثني عماي، (أنهم كانوا يكرون الأرض على عهد النبي صلى الله عليه وسلم بما ينبت على الأربعاء أو شيء يستثنيه صاحب الأرض فنهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك)، فقلت لرافع: فكيف هي بالدينار والدرهم؟ فقال رافع: ليس بها بأس بالدينار والدرهم“

 ترجمہ: رافع بن خدیج سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ مجھے میرے چچاؤں نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں زمین کو کرائے پر دیتے تھے، اس(غلے) کے بدلے میں جو نہروں کے کنارے پر اُگے گا یا اس چیزکے بدلے میں جسے زمین کا مالک اپنے لیے مستثنیٰ کرلے، تو نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا۔ میں نے رافع سے کہا یہ معاملہ درہم و دینار کے ساتھ کرنا کیسا ہے ؟ تو رافع نے کہا کہ دینار و درہم کے ساتھ یہ معاملہ کرنے میں حرج نہیں۔ (صحیح البخاری، جلد3، صفحہ108، حدیث: 2346، مطبوعہ: مصر)

بخاری شریف میں ہی ہے

”وقال ابن عباس: إن أمثل ما أنتم صانعون: أن تستأجروا الأرض البيضاء، من السنة إلى السنة“

 ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما نے فرمایا: جو تم کرتے ہو اس میں سے سب سے بہتر یہ ہے کہ تم خالی زمین کو سال سے سال تک کرائے پر لے لیتے ہو۔ (صحیح البخاری، جلد3، صفحہ108، مطبوعہ: مصر)

علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمۃ عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں:

”ان کراء الارض بالذھب والفضۃ غیر منھی عنہ، وانما النھی الذی ورد عن کراء الارض فیما اذا اکریت بشیء مجہول، و ھذا ھو الذی ذھب الیہ الجمہور۔۔۔ وفي (مصنف) ابن أبي شيبة حكى جواز ذلك عن سعد بن أبي وقاص، وسعيد بن المسيب وابن جبير وسالم وعروة و محمد بن مسلم و إبراهيم وأبي جعفر محمد بن علي بن الحسين، وحكي جواز ذلك عن رافع مرفوعا. وفي حديث سعيد بن زيد: وأمرنا النبي صلى الله عليه وسلم أن نكريها بالذهب والورق، وقال ابن المنذر: أجمع الصحابة على جوازه، وقال ابن بطال: قد ثبت عن رافع مرفوعا أن كراء الأرض بالنقدين جائز“

ترجمہ: زمین کو  سونے اور چاندی کے بدلے کرائے پر دینا ممنوع نہیں۔ زمین کو کرائے پر دینے کے حوالے سے جو ممانعت ہے وہ اس بارے میں ہے کہ جب اسے کسی مجہول شے کے عوض کرائے پر دیا جائے۔ یہ وہی مذہب ہے جس کی طرف جمہور گئے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت سعد بن ابی وقاص، سعید بن مسیب، ابن جبیر، سالم، عروہ، محمد بن مسلم، ابراہیم، ابوجعفر محمد بن علی بن حسین رضوان اللہ تعالی علیہم سے اس کا جواز نقل کیا ہے، جبکہ حضرت رافع سے مرفوعاً اس کا جواز روایت کیا ہے۔ سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم زمین سونے اور چاندی (درہم و دینار) کے عوض کرائے پر دیں۔ ابن منذر نے کہا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اس کے جواز پر اجماع ہے، ابن بطال نے کہا کہ رافع سے مرفوعاً ثابت ہے کہ زمین کو درہم و دینار کے عوض کرائے پر دینا جائز ہے۔(عمدۃ القاری، باب کراء الارض بالذھب والفضۃ، جلد 12، صفحہ184، مطبوعہ: بیروت)

فتاوی رضویہ میں امام اہل سنت، امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”زراعت کے لئے جیسا ایک کھیت کااجارہ پر دینا جائز، یوں ہی سارے گاؤں کا۔۔۔ گاؤں میں چوپال اور مکان سکونت اور افتادہ زمینیں اور کاشت سے خالی کھیت اور وہ کھیت جن کی میعاد پٹہ تمام ہوگئی، اور بنجرغرض جس قدر اراضی کسی کے اجارہ میں نہیں وہ تمام و کمال مستاجر کو سنین معینہ کے لئے اجرت معینہ پر (جتنا زر ٹھیکہ رکھنا منظورہو) زراعت و سکونت وانتفاع کے لئے مباح کردی جائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 558، 559، رضافاؤنڈیشن، لاہور)

بہار شریعت میں ہے ”زمین کو زراعت کے لیے اُجرت پر دینا جائز ہے جبکہ یہ بیان ہو جائے کہ اُس میں کیا چیز بوئی جائے گی یا مزارع سے یہ کہہ دے کہ جو تو چاہے بولیا کر، اگر ان چیزوں کا بیان نہیں ہوگا تو منازعت ہوگی کیونکہ زمین کبھی زراعت کے لیے اجارہ پر دی جاتی ہے کبھی دوسرے کام کے لیے اور زراعت سب چیزوں کی ایک قسم نہیں کہ بیان کرنے کی حاجت نہ ہو بعض چیزوں کی زراعت زمین کے لیے مفید ہوتی ہے اور بعض کی مضر ہوتی ہے اگر ان چیزوں کو بیان نہیں کیا گیا تو اجارہ فاسد ہے۔“ (بہار شریعت، جلد 3، حصہ 14، صفحہ 124، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4418

تاریخ اجراء: 16جمادی الاولی1447 ھ/08نومبر2025 ء