اجرت طے کئے بغیر اجیر رکھنا کیسا؟

اجرت طے کیے بغیر ٹیچر رکھ لیا تو اب کیا حکم ہے؟

دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے مدرسے میں پڑھانے کے لیے ایک مدرس کو اجرت پر رکھا، مگر اس کے ساتھ اجرت طے نہیں کی، اب مدرس کو پڑھاتے ہوئے تین ماہ ہو گئے ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ اجرت طے کیے بغیر مدرس کو اجیر رکھنا ٹھیک تھا؟ اور ان تین مہینوں کی مدرس کو کچھ اجرت ملے گی یا نہیں؟ اس معاملے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

شریعتِ مطہرہ نے کسی کو ملازمت پر رکھنے کی کچھ شرائط بیان فرمائی ہیں، انہی میں سے ایک شرط یہ ہے کہ کام کی اجرت معلوم ہو، اجرت طے کیے بغیر اجارہ کرنا، شرعاً اجارۂ فاسدہ ہوتا ہے، جو کہ ناجائز و گناہ ہے اور اس معاہدے کو ختم کرنا بھی واجب ہوتاہے، البتہ اجارۂ فاسدہ کی صورت میں اگر اجیر نے کام کیا، تو اس کو اجرتِ مثل (یعنی عمومی طور پر اس علاقے میں ایسے مدرس کو جو اجرت ملتی ہے وہ) دینا واجب ہوگا، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں زید کا اجرت طے کیے بغیر مدرس کو رکھنا، شرعاً اجارۂ فاسدہ ہے جس کو ختم کرنا ضروری ہے اور اس سے توبہ کرنا بھی لازم ہے، البتہ زید پر مدرس کو تین ماہ کی اجرت (اجرتِ مثل کے طورپر) دینا لازم ہے۔

اجارہ کے درست ہونے کے لیے کام کی اجرت معلوم ہونا ضروری ہے، جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

أن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نهى عن استئجار الأجير حتى يبين أجره

یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اجیر کو اجرت بتائے بغیر اجارہ پر رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ (مسند احمد، جلد 18، حدیث 11649، صفحہ 193، مطبوعہ مؤسسة الرسالة، بيروت)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ اور فتاوی عالمگیری میں ہے:

و النظم للاول: شروط صحة الإجارة، و هي أن تكون الأجرة معلومة

یعنی اجارہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط اجرت کا معلوم ہونا ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیہ الکویتیہ، جلد 35، صفحہ 156، مطبوعہ دار السلاسل، الكويت)

اگر اجارہ میں اجرت معلوم نہ ہو، تو اجارہ فاسد ہوجاتا ہے، جیسا کہ بحرالرائق اور فتاوی عالمگیری میں ہے:

و النظم للاول:  الفساد قد يكون لجهالة قدر العمل بأن لا يعين محل العمل، و قد يكون لجهالة قدر المنفعة بأن لا يبين المدة، و قد يكون لجهالة البدل أو المبدل، و قد يكون لشرط فاسد مخالف لمقتضى العقد، فالفاسد يجب فيه أجرة المثل لا يزاد على المسمى إن سمى و إلا فأجر المثل بالغا ما بلغ

ترجمہ: بعض اوقات اجارہ اس لیے فاسد ہوتا ہے کہ کام کی مقدار مجہول ہوتی ہے، یعنی کام کا محل خاص نہیں کیا گیا ہوتا اور کبھی منفعت مجہول ہوتی ہے، یوں کہ مدت بیان نہیں کی جاتی اور کبھی بدل یعنی اُجرت مجہول ہوتی ہے اور کبھی ایسی شرط فاسد پائی جاتی ہے جو مقتضائے عقد کے خلاف ہوتی ہے ، تو اس صورت میں اجارہ فاسد ہوگا اور جب اجارہ فاسد ہو ،تو اجرتِ مثل دینا واجب ہوتی ہے اور اگر عقد میں معلوم اجرت بیان کی گئی ہو، تو اجرتِ مثل بیان کردہ اجرت سے زیادہ نہیں دی جائے گی اور اگر ذکر نہ کی گئی ہو، تو اجرت مثل ہی دینا لازم ہے، چاہے جتنی بھی ہو جائے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، جلد 8، صفحہ 19، مطبوعہ دار الكتاب الإسلامي)

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”اجارہ جو امر جائز پر ہو وہ بھی اگر بے تعینِ اجرت ہو تو بوجہِ جہالت اجارہ فاسدہ اور عقد حرام ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 529، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

اگر کسی نے تعلیمِ قرآن وغیرہ کے لیے اجارہ کیا اور مدت یا اُجرت بیان نہیں کی، تو اجرتِ مثل دینا واجب ہے، جیسا کہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:

و يفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن و الفقه و الامامة و الاذان (و يجبر المستأجر على دفع ما قیل)  فيجب  المسمى  بعقد و أجر المثل إذا لم تذكر مدة

ترجمہ: فی زمانہ قرآنِ پاک یا فقہ کی تعلیم یا امامت و مؤذنی کا اجارہ کرنا درست ہے اور اس صورت میں اجارہ کرنے والے شخص پر بیان کردہ اجرت کی ادائیگی کے حوالے سے جبر کیا جائے گا اور اگر مدتِ اجارہ (یا اُجرت) بیان نہیں کی، تو اجرتِ مثل دینا واجب ہے۔ (تنویر الابصار مع در مختار، کتاب الاجارہ، صفحہ 581، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بيروت)

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”تعلیم پر جب اُجرت لینا جائز ہے، تو جو اُجرت مقرر ہوئی مستاجر کو دینی ہوگی اور اُس سے جبراً وصول کی جائیگی اور اگر اجارہ فاسد ہو مثلاً مدت نہیں مقرر کی، تو اُجرتِ مثل واجب ہوگی۔ (بھارِ شریعت، اجارہ کا بیان، جلد 3، صفحہ 148، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR-0100

تاریخ اجراء: 06ربیع الثانی 1447ھ/30 ستمبر 2025 ء