دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میری ایک کریانہ (جنرل اسٹور) کی دکان ہے۔ میری دکان پر مختلف کمپنیوں کے نمائندے اور سپلائرز آتے ہیں۔ان میں سے کچھ یہ پیشکش کرتے ہیں کہ آپ صرف ہمارا سامان (آئٹم) اپنی دکان میں رکھیں اور اسی کو فروخت کریں، کسی دوسری کمپنی یا برانڈ کا مت بیچیں۔ اس کے بدلے ہم آپ کو ایک مخصوص رقم (مثلاً ماہانہ 10,000 روپے یا اس سے زائد) بطور برانڈ پروموشن انسینٹو دیں گے۔ مثال کے طور پر ایک مشروبات کمپنی کہتی ہے کہ آپ ہماری بوتلیں رکھیں، دوسرے برانڈ کو نہ رکھیں، ہم آپ کو پروموشن فیس دیں گے۔ ان کا سامان کوالٹی کے لحاظ سے خراب بھی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات دیگر کمپنیوں سے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا شرعاً میرے لیے یہ درست ہے کہ میں اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے رقم لے لوں اور اپنے آپ کو صرف ایک کمپنی کا سامان بیچنے کا پابند کرلوں؟کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اس میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں آپ کیلئے اس رقم کو لینا ہرگز جائز نہیں، وہ رقم رشوت ہے، جو ناجائز و حرام ہے، کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہاں جو آپ کو رقم دی جارہی ہے، وہ کسی جائز معاوضے یا حقیقی خدمت کے بدلے میں نہیں دی جارہی، بلکہ صرف اپنا کام بنانے کیلئے دی جارہی ہے، تاکہ آپ ان کی مطلوبہ ایک مخصوص کمپنی کا سامان بیچیں، دوسری کمپنیوں کے سامان سے اجتناب کریں، اور جو رقم محض اپنا کام بنانے کیلئے کسی کو دی جائے، وہ رشوت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ آپ کو جو مذکورہ رقم دی جارہی ہے، اس کو برانڈ پروموشن انسینٹو (Brand Promotion Incentive)کہا جائے، پروموشن فیس کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے، ہر صورت میں یہ رقم رشوت ہی کہلائے گی۔ نام بدلنے سے چیز کی حقیقت و مفہوم نہیں بدلتا اور شریعت کا قاعدہ ہے کہ اعتبار مقاصد و معانی کا ہوتا ہے، جیساکہ مجلۃ الاحکام میں ہے:
العبرة في العقود للمقاصد و المعاني لا للألفاظ و المباني
ترجمہ: عقود میں مقاصد اور معانی کا اعتبار ہوتا ہے ، الفاظ اور مبانی کا اعتبار نہیں ہوتا۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، ص 16، طبع: کراچی)
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ تَرٰى كَثِیْرًا مِّنْهُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اَكْلِهِمُ السُّحْتَؕ- لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ
ترجمہ کنز العرفان: اور تم ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور زیادتی اور حرام خوری کے کاموں میں دوڑے جاتے ہیں۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے ہیں۔ (القرآن الکریم، پارہ 6، سورۃ المائدۃ، آیت 62)
امام فخر الدین رازی علیہ الرحمۃ تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں:
و أما أكل السحت فهو أخذ الرشوة۔۔لفظ الإثم يتناول جميع المعاصي و المنهيات، فلما ذكر اللہ تعالى بعده العدوان وأكل السحت دل هذا على أن هذين النوعين أعظم أنواع المعصية و الإثم
ترجمہ: اور حرام کھانے سے مراد رشوت لینا ہے ،آیت مذکورہ میں لفظ اثم تمام گناہوں اور ممنوع کاموں کو شامل تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد سرکشی اور حرام کھانے کا ذکر فرمایا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں، معصیت اور گناہ کی بڑی قسموں میں سے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، ج 12، ص 392، دار إحياء التراث العربي - بيروت)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے:
لعن رسول الله صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم الراشی و المرتشی
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے رشوت لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (سنن ابو داؤد، کتاب القضاء، باب فی کراھیۃ الرشوۃ، ج 2، ص 148، مطبوعہ لاھور)
بحر الرائق میں ہے:
و في المصباح الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد۔۔ و ذكر الأقطع أن الفرق بين الهدية والرشوة أن الرشوة ما يعطيه بشرط أن يعينه و الهدية لا شرط معها
ترجمہ:اور مصباح میں ہے کہ رشوت راء کے کسرہ کے ساتھ اس چیز کا نام ہے، جوآدمی حاکم یا اس کے غیر کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا وہ چیز اسے ابھارے اس کام پر، جو رشوت دینے والا چاہتا ہے، اور امام اقطع علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ہدیہ اور رشوت میں فرق یہ ہےکہ رشوت وہ مال ہے، جو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی کسی معاملے میں مدد کرے گا اور ہدیہ وہ مال ہے جس کے ساتھ کو ئی شرط نہ ہو۔ (البحر الرائق، ج 05، ص 285، دار الكتاب الإسلامي)
فتاوٰی رضویہ میں ہے: ” وزن کشی کے ٹھیکہ سے اگر یہ مراد ہے کہ "تولا"کچھ روپے زمیندار کو دے کہ اس سال گاؤں بھر کی "راسیں" وہی تولے دوسرانہ تولنے پائے، اور وہ ہر کاشت کار سے اپنے تولنے کی اجرت لے تو یہ محض حرام، اور وہ روپیہ جو زمیندار کو دیا نری رشوت ہے۔ اور دوسرے کو تول سے ممانعت محض ظلم ہے۔ اس کی نظیر اسٹیشن پرسودا بیچنے کا ٹھیکہ ہے کہ بیع تو اس میں اور خریداروں میں ہوگی، یہ ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں، دوسرانہ بیچنے پائے، یہ شرعا خالص رشوت ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 19، ص 559، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0659
تاریخ اجراء: 27ربیع الثانی 1447ھ/21اکتوبر 2025 ء