
مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-554
تاریخ اجراء: 18 شوال المکرم 1446 ھ/ 17 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ گارمنٹس مارکیٹ کے اندر تقریباً تمام دکانوں پر یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ ہمارا مال فرنٹ پر لگا نے کے لیے دکان میں جو نوکر ہوتے ہیں اپنے کمیشن کا بولتے ہیں، ان کو کمیشن دیں، تو ہمارا مال فرنٹ پر لگاتے ہیں اور اگر کمیشن نہ ملے تو وہ مال بیک سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں، تو ایسا کرنا درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں جو کمیشن کے نام پر دکان پر کام کرنے والے کو دیتے ہیں وہ کمیشن نہیں، بلکہ رشوت ہے اور رشوت لینا، دینا ناجائز وحرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ نے سامان دکاندار کو بیچ دیا، تو وہ اب آپ کا نہ رہا، بلکہ دکاندار کا ہو گیا، لہٰذا اب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں اپنا مال بیچنے پر کمیشن دے رہا ہوں، بلکہ آپ اپنا کام نکلوانے کے لیے مال دے رہے ہیں کہ سیلز مین کو کچھ مال دوں تاکہ یہ ترجیحی طور پر میری پروڈکٹ سیل کریں اور پھر مزید آرڈر اس دکان سے ملے، اس طرح اپنی منشاء پوری کرنے کے لیے جو مال دیا جاتا ہے، وہ رشوت کہلاتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿سَمّٰعُونَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ﴾
ترجمۂ کنز العرفان: ’’بہت جھوٹ سننے والے، بڑے حرام خور ہیں۔‘‘ (القرآن، پارہ 6، سورۃ المائدۃ، آیت 42)
مذکورہ بالا آیت کریمہ کے تحت حضرت علامہ ابو بکر احمد الجصاص رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:
”اتفق جمیع المتاولین لھذہ الآیۃ علی ان قبول الرشا حرام، و اتفقو انہ من السحت الذی حرمہ اللہ تعالی“
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے تمام مفسرین نے اتفاق کیا ہے کہ بے شک رشوت کا قبول کرنا حرام ہے اور اس بات پر (بھی)اتفاق کیا کہ رشوت اس سحت میں سے ہے،جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے۔ (احکام القرآن للجصاص، ج 2، ص 607، مطبوعہ کراچی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
’’لعن رسولُ اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلّم الراشی و المرتشی“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلم نے رشوت لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (ابو داؤد، جلد 2، صفحہ 148، مطبوعہ بیروت)
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ رشوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”الرشوۃ بالکسر:ما یعطیہ الشخص الحاکم و غیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید“
ترجمہ: ’’رشوت‘‘ کسرہ کے ساتھ اس چیز کا نام ہے، جوآدمی حاکم یا اس کے غیر کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا وہ چیز اسے ابھارے اس کام پر، جو رشوت دینے والا چاہتا ہے۔ (رد المحتار، جلد 8، صفحہ 42، مطبوعہ کوئٹہ)
بحرالرائق میں رِشوت اور تحفہ میں فرق کے حوالے سے ہے:
”ان الفرق بين الهدية و الرشوة أن الرشوة ما يعطيه بشرط أن يعينه و الهدية لا شرط معها“
ترجمہ: ہدیہ اور رشوت میں فرق یہ ہےکہ رشوت وہ مال ہے، جو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ رشوت لینے والا رشوت دینے والے کی کسی معاملے میں مدد کرے گا اور ہدیہ وہ مال ہے جس کے ساتھ کو ئی شرط نہ ہو۔ (بحر الرائق، جلد 6، صفحہ 441، مطبوعہ پشاور)
اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں۔ جوپرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے رشوت ہے، یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 23، صفحہ 597، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اسٹیشن پر یہی اپنا مال بیچے دوسرا نہ بیچ پائے اس کے لیے ریلوے حکام کو کچھ دینا، اس حوالے سے فتاوی رضویہ شریف میں ہے: ”بیع تو اس میں(اسٹیشن پرسودا بیچنے والے) اور خریداروں میں ہوگی، یہ ریل والوں کو روپیہ صرف اس بات کا دیتاہے کہ میں ہی بیچوں، دوسرا نہ بیچنے پائے، یہ شرعاً خالص رشوت ہے۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ 559، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم