دار الافتاء اہلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ میں درزی ہوں، لوگ میرے پاس اپنے سوٹ سلوانے کیلئے آتےہیں، عمومی طور پر سلائی کی اجرت کپڑا سل جانے کے بعد دیتے ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی گاہک مجھے کہتا ہے کہ میں آپ کو اجرت ایڈوانس میں دیتا ہوں لیکن آپ مجھ سے سوٹ کی سلائی کی اجرت میں سے مثلا سو یا پچاس روپے کم کردیں اور مجھے اس وقت رقم کی ضرورت ہوتی ہے تو میں اس بات کو قبول کرلیتا ہوں اور ایڈوانس کم اجرت لے لیتا ہوں۔ یونہی بسا اوقات میں یہ آفر خود گاہک کو کرتا ہوں تاکہ مجھے رقم مل جائے اور میری ضرورت پوری ہوجائے۔
کیا اس طرح ایڈوانس اجرت کے بدلے میں اسی اجرت میں کمی کرنا یا کروانا جائز ہے؟ یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آئےگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں ایڈوانس اجرت کی شرط لگانا اور اجرت میں کمی کرنا یا کروانا، جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں اور اس میں سود کا بھی کوئی پہلو نہیں۔
وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ عقد اجارہ ہے اور فقہاء کرام نے بیان فرمایا ہے کہ اجارہ میں اجرت کے استحقاق کی چند صورتیں ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اجرت پیشگی (Advance) دینے کی شرط لگائی جائے۔ لہٰذا اجرت کو ایڈوانس دینا یا اس کی شرط لگانا عقد کے تقاضے کے عین مطابق ہے، اس کے خلاف نہیں، اس لیے یہ شرط بالکل جائز ہے، اور چونکہ جو رقم ایڈوانس میں دی جارہی ہے ، وہ کوئی قرض نہیں جس کے عوض مشروط نفع حاصل کرنا سود ہوتا ہے، بلکہ وہ تو ایک منفعت مقصودہ یعنی کپڑے کی سلائی کے بدلے میں دی جارہی ہے،لہٰذا وہ اجرت معجلہ ہے ، جس کی کمی میں خود درزی کی رضامندی شامل ہے، لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی چیز کو بیچتے وقت اس کا ثمن ، نقد میں کم اور ادھار میں زیادہ مقرر کیا جائے تو فقہاء کرام نے اس کے جائز ہونے اور سود نہ ہونے کی تصریح فرمائی، اور کتب فقہ میں ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ اجارہ میں اجرت کا معاملہ ایسا ہی ہے جیساکہ بیع میں ثمن کا معاملہ ہے، لہٰذا ایڈوانس کی شرط لگانے کی وجہ سے اسی اجرت میں کمی کرنا بھی جائز ہوگا اور سود نہیں کہلائے گا۔
استحقاق اجرت کی صورتیں بیان کرتے ہوئے،اما م ابو الحسن برہان الدین مرغینانی علیہ الرحمۃ ہدایہ میں اور امام ابوبکر حدادی حنفی علیہ الرحمۃ جوہرہ میں لکھتے ہیں،
و اللفظ للجوھرۃ: (و الأجرة لا تجب بالعقد) أي لا يجب أداؤها (و يستحق بأحد معان ثلاثة إما أن يشترط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه)
ترجمہ: اور اجرت عقد کی وجہ سے واجب نہیں ہوتی یعنی اس کا ادا کرنا لازم نہیں ہوتا اور اس کا استحقاق تین صورتوں میں سے ایک کے ذریعے ہوتا ہے یا پیشگی اجرت کو شرط قرار دیا جائے یا بغیر شرط پیشگی اجرت دے دی جائے یا جس چیز پر عقد ہوا، اس کے منافع کو مکمل حاصل کرلیا جائے۔ (الھدایۃ، ج 03،ص 231،دار احیاء التراث العربی) (الجوھرۃ النیرۃ، ج 01، ص 268، المطبعة الخيرية)
تعجیل اجرت کی شرط مقتضائے عقد کے خلاف نہیں، امام علاء الدین ابوبکر کاسانی علیہ الرحمۃ بدائع الصنائع میں لکھتے ہیں:
فإن شرط فيه تعجيل البدل فعلى المستأجر تعجيلها و الابتداء بتسليمها، سواء كان ما وقع عليه الإجارة شيئا ينتفع بعينه كالدار و الدابة و عبد الخدمة، أو كان صانعا أو عاملا ينتفع بصنعته أو عمله كالخياط و القصار و الصياغ والإسكاف؛ لأنهما لما شرطا تعجيل البدل لزم اعتبار شرطهما لقوله - صلى اللہ عليه وسلم - «المسلمون عند شروطهم»
ترجمہ: اگر پیشگی بدل کی شرط لگائی، تو مستاجر پر پیشگی اجرت دینا اور رقم حوالے کرنالازم ہے، خواہ جس چیزپر اجارہ ہوا بعینہ اسی سے انتفاع حاصل کیا جائے، جیسے: گھر، جانور، خدمت کے غلام یا پھر وہ صانع یا عامل ہو کہ اس کی صنعت اور کام سے انتفاع کیا جائے، جیسے: درزی، دھوبی، رنگریز اور موچی، کیونکہ جب ان دونوں نے پیشگی اجرت کی شرط لگائی تو ان کی شرط کا اعتبار کرنا واجب ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔(بدائع الصنائع، ج 04، ص 203، دار الكتب العلمية)
شرطِ تعجیل کے مقتضائے عقد کے خلاف نہ ہونے کی علت شرح مجلۃ الاحکام میں یوں بیان ہوئی:
سؤال: إن شرط التعجيل مناف لمقتضى العقد وفيه منفعة لأحد الطرفين و مقتضى ذلك أن تفسد به الإجارة فلم لم تفسد؟ الجواب: بما أن الإجارة عقد معاوضة فلا يكون شرط التعجيل في الأجرة مخالفا لمقتضى العقد لأن عقد الإجارة كالبيع يجب التعجيل فيه ولكن يسقط التعجيل في الإجارة لمانع المساواة.وبما أن المساواة حق من حقوق المستأجر فبالتعجيل يكون قد أسقط ذلك الحق فيعود الممنوع بزوال المانع
ترجمہ: سوال: ایڈوانس اجرت کی شرط عقد کے تقاضے کے خلاف ہے اور اس میں ایک فریق کا نفع بھی ہے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے اجارہ فاسد ہو جائے، تو پھر یہ کیوں فاسد نہیں ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اجارہ ایک معاوضہ کا عقد ہے، اس لیے ایڈوانس اجرت کی شرط عقد کے تقاضے کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ اجارہ کا عقد بیع کی طرح ہے، جس میں ثمن کی فوری ادائیگی ضروری ہے، لیکن اجارہ میں ایڈوانس ادا کرنا مساوات ( اجرت اور شے مستاجرہ میں برابری) کے مانع کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔ اور اس وجہ سے بھی کہ مساوات مستاجر کے حقوق میں سے ایک حق ہےاور ایڈوانس ادا کرنے سے اس نے خود اپنا حق ساقط کردیا تو اس طرح ممنوعہ چیز، مانع کے زوال کی وجہ سے واپس لوٹ آئے گی۔ (درر الحکام، ج 01، ص 531،دار الجیل)
بیع میں نقد و ادھار کے اعتبارسے ثمن میں کمی و زیادتی کرنا سود نہیں ، محقق ابن الہمام علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
ان كون الثمن على تقدير النقد ألفا و على تقدير النسيئة ألفين ليس فی معنى الربا
ترجمہ: کسی چیز کی قیمت نقد کی صورت میں ایک ہزار اور ادھار کی صورت میں دو ہزار ہو ، تو یہ سود کے معنی میں داخل نہیں۔ (فتح القدیر، ج 06، ص 447، دار الفکر، بیروت)
لہٰذا اجارے میں اجرت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہوگا جیساکہ بیع میں ثمن کا معاملہ ہے، کیونکہ اجرت کے احکام ثمن پر متفرع ہیں، چنانچہ مبسوط سرخسی اور بدائع میں بالفاظ متقاربہ ہے:
الاجرۃ فی الاجارات معتبرۃ بالثمن فی البیاعات لان کل واحد من العقدین معاوضۃ المال بالمال
ترجمہ: اجارہ میں اجرت کو بیع میں ثمن پر قیاس کیا جائے گا، کیونکہ ان میں سے ہر ایک معاوضۃ المال بالمال (مال کے بدلے مال دینا) ہے۔ (المبسوط للسرخسي، ج 16، ص 07،دار المعرفۃ) (بدائع الصنائع، ج 04، ص 193،دار الکتب العلمیۃ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0660
تاریخ اجراء: 28ربیع الثانی 1447ھ/22اکتوبر 2025 ء