دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ کوئی خاتون اردو کی کلاسز پڑھاتی ہےاور ہر ماہ فیس ایڈوانس لیتی ہے، ان کی ایک طالبہ نے فیس جمع کروادی اور پھر وہ گھر میں شادی کے سبب پورے ماہ کلاس جوائن نہیں کرپائی اور اگلےماہ پڑھنے آئی، تو کیا ان کی فیس واپس کی جاۓ گی حالانکہ ٹیوشن کھلا تھا اور دوسری بچیاں آتیں تھیں؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔ نیز یہ بھی وضاحت فرمادیجئے کہ اگر کسی طالبہ نے ایک ماہ کا ایڈوانس دے کر 10/12 روز پڑھائی کی اور پھر بلا اطلاع ٹیوشن چھوڑ دیا۔ اب اُس ماہ کے اختتام کے بعد ان کی والدہ آکر کہتی ہیں کہ ہمیں کم فیس میں پڑھانے والی معلمہ مل گئی ہے جبھی میری بچی پڑھنے نہیں آئی، لہذا مجھے بقیہ ایام کی فیس واپس کی جائے، ایسی صورت میں معلمہ پر بقیہ ایام کی فیس واپس کرنا ضروری ہے یا پھر وہ مکمل فیس کی مستحق ہوگئی ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
دونوں صورتوں کے جوابات درج ذیل ہیں:
(۱)اگر ایڈوانس فیس جمع کروانے کے بعد طالبہ نے کلاسز میں شرکت نہیں کی، حالانکہ کلاسز باقاعدہ جاری رہیں اور دیگر طالبات حاضر ہو کر تعلیم حاصل کرتی رہیں، نیز اس طالبہ کے لیے بھی شرکت کا راستہ کھلا تھا، لیکن اس نے محض گھر کی شادی میں مصروفیت کے سبب کلاسز میں شرکت نہ کی، تو اس صورت میں معلمہ مہینے کے اختتام پر مکمل فیس کی حق دار ہوجائے گی اور طالبہ فیس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔
(۲) اگر طالبہ نے ایڈوانس فیس دے دی لیکن کچھ دن پڑھنے کے بعد ٹیوشن صرف اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ دوسری معلمہ کم فیس میں پڑھانے کو تیار ہوگئی تھی، ایسی صورت میں پہلی معلمہ مذکورہ مہینے کے اختتام پر پوری فیس کی مستحق ہوجائے گی کیونکہ محض کم فیس میں پڑھانے والی معلمہ کا مل جانا فسخ اجارہ یعنی اجارے کو ختم کرنے کے لئے شرعاعذر نہیں، اور بالفرض عذر ہوتا بھی تو اس میں یہ ضروری تھا کہ جس ماہ کی پیشگی فیس دی تھی، اسی کے دوران آکر معلمہ کی رضامندی سےفسخ اجارہ یعنی تعلیم کا معاہدہ ختم کرتی، حالانکہ ایسی کوئی صورت نہیں پائی گئی، یوں بھی معلمہ پورے ماہ پڑھانے کے لئے حاضر رہنے کے سبب مکمل فیس کی حقدار قرار پائے گی۔
تفصیل:
ہمارے یہاں اسکول ٹیوشن وغیرہ کے تعلیمی اجارے عام طور پر اجارہ خاصہ یعنی وقت کے اجارے ہوتے ہیں جس میں باہمی رضامندی سے جگہ اور وقت کا تعین کرلیا جاتا ہے کہ فلاں جگہ اور فلاں وقت میں تعلیم کا سلسلہ ہوا کرے گا۔ ایسی صورت میں استاد پر یہ لازم ہے کہ وہ متعینہ وقت اور جگہ میں خود کو پڑھانے کے لئے حاضر رکھے اور اس کی جانب سے تعلیم کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہ پائی جائے، اب چاہےطالب علم پڑھنے آئے یا نہ آئے، بہر صورت وہ فیس کا مستحق ہوجائے گا کیونکہ معاہدے کے مطابق طالب علم استاد سے استفادہ پر قادر تھا اور فقہائے کرام کے ارشادات کے مطابق جب مستاجر(طالب علم) اجیر (استاد) سے مقررہ وقت اور جگہ میں متعینہ منفعت حاصل کرنے پر قادر ہو، خواہ بالفعل حاصل نہ کرے، تو بھی اجیر اجرت(فیس) کا مستحق ہوجاتا ہے۔
درر الحكام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
”لو استؤجر أستاذ لتعليم علم أو صنعة فإن ذكرت مدة انعقدت الإجارة على المدة حتى أن الأستاذ يستحق الأجرة لكونه حاضرا ومهيأ للتعليم قرأ التلميذ، أو لم يقرأ“
اگر کسی اُستاذ کو کسی علم یا ہنر کی تعلیم کے لیے اجرت پر رکھا جائے اور مدت متعین کر دی جائے، تو یہ وقت کا اجارہ ہوگا حتی کہ اُستاذ اس مدت میں موجود اور تعلیم کے لیے تیار رہنے سے اجرت کا مستحق ہو جائےگا، خواہ شاگرد پڑھے یا نہ پڑھے۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام، ج01، ص653-654، دار الجيل)
سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن لکھتے ہیں: ”مدرسین و امثالہم اجیر خاص ہیں اور اجیر خاص پر وقت مقررہ معہود میں تسلیمِ نفس لازم ہے اور اسی سے وہ اجرت کا مستحق ہوتا ہے اگرچہ کام نہ ہو۔ مثلاً مدرس (ٹیچر) وقت معہود پر مہینہ بھر برابر حاضر رہا اور طالب علم کوئی نہ تھا کہ سبق پڑھتا، مدرس کی تنخواہ واجب ہوگئی۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 19، ص 506، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
عقداجارہ میں متعین کردہ جگہ اور وقت میں منفعت کے حصول پر قدرت سے ہی اجارہ واجب ہوجاتا ہے۔شرح المجلۃ میں ہے:
”تلزم الاجرۃ ایضا فی الاجارۃ الصحیحۃ بالاقتدار علی اسیفاء المنفعۃ۔۔۔ان یکون التمکن من استیفاء المنفعۃ فی المحل المضاف الیہ العقد وفی المدۃ التی ورد علیھا العقد“
اجارہ صحیحہ میں منفعت حاصل کرنے کی قدرت سے ہی اجارہ واجب ہوجاتا ہے یعنی عقد میں جس مقام کا ذکر ہوا اور جس مدت کو متعین کیا گیا اس میں منفعت کے حصول پر قادر ہونے سے ہی اجارہ واجب ہوجائےگا۔ (شرح المجلۃ، ج01، ص209-210، دار الکتب العلمیۃ)
بہار شریعت میں ہے: ” منفعت حاصل کرنے پر قادر ہونے سے اُجرت واجب ہوجاتی ہے اگرچہ منفعت حاصل نہ کی ہو۔“ (بہار شریعت، ج03، ص111، مکتبۃ المدینۃ کراچی)
اجارہ صحیحہ میں جب پیشگی اجرت ادا کردی جائے، نیز اجیر سپرد کردہ کام کے لئے حاضر رہے اور اس کی جانب سے کوئی کوتاہی بھی نہ پائی جائے تو وہ مکمل اجرت کا مستحق ہوجائے گا، الا یہ کہ مدت اجارہ کے درمیان عذر صحیح کے سبب اجارہ فسخ کردیا جائے تو ایسی صورت میں اجیر پر بقایا دنوں کی اجرت واپس کرنا لازم ہوگا، بشرطیکہ فسخ اجارہ کا معاملہ درمیان مدت ہی ہوا ہو۔
درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
”لو سلم المستاجر الاجرۃ نقدا ملکھا الآجر ولیس للمستاجر استردادھا۔۔۔وذلک مالم تنفسخ الاجارۃ قبل انتھاء مدتھا فللمستاجر حینئذ استرداد ما زاد من الاجرۃ من المدۃ“
اگر مستاجر نے اجرت نقدادا کر دی، تو کام کرنے والا اجرت کا مالک ہوجائے گا اور مستاجر اجرت واپس نہیں لے سکتا، بشرطیکہ مقررہ مدت کے ختم ہونے سے پہلے اجارہ فسخ نہ ہو۔ اور اگر اجارہ اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے فسخ ہوجاتا ہے، تو اب مستاجر کو باقی ماندہ اجرت واپس لینے کا حق حاصل ہوگا۔ (درر الحکام شرح مجلۃالاحکام، ج01، ص478-479، دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پہلے استاد کی طرف سے تعلیم میں کوئی کوتاہی نہیں پائی گئی اور طالب علم کو دوسرا ٹیچر کم فیس میں پڑھانے والا مل گیا، تو یہ فسخ اجارہ کے لئے عذر نہیں جیسا کہ چلتے بازار میں دکاندار کو دوسری جگہ کم پیسوں میں دکان مل جائے تو یہ اس کے حق میں فسخ اجارہ کے لئے عذر نہیں ہوتا۔ بہار شریعت میں ہے: ”اگر بازار چالو ہے مگر یہ دکاندار دوسری دکان میں منتقل ہونا چاہتا ہے جو اس سے زیادہ کُشادہ ہے یا اُس کا کرایہ کم ہے اور اُس دکان میں بھی یہی کام کریگا جو یہاں کررہا ہے تو دکان نہیں چھوڑ سکتا۔“ (بہار شریعت، ج03، ص173، مکتبۃ المدینۃ کراچی)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”اور کسی شخص کو اصلا اختیار نہیں کہ بے اطلاع اجیر جب چاہے بطور خود عقد اجارہ فسخ کردے، مگر جب کوئی عذر بین واضح ظاہر ہوجس میں اصلا محل اشتباہ نہ ہو جب تک ایسا نہ ہو اجیر بیشک مستحق تنخواہ ہوگا۔
فی الدرالمختار الاجارۃ تفسخ بالقضاء والرضاء الخ، وفی ردالمحتار الاصح ان العذران کان ظاھر اینفرد وان مشتبھا لاینفرد۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔
درمختارمیں ہے: اجارہ رضامندی یا قضاءکے ذریعے فسخ ہوتا ہے الخ، اور ردالمحتار میں ہے: اصح یہ ہےکہ اگر عذر ظاہر ہو تو وہ خود بھی فسخ کرسکتا ہے اور اگر عذر مشتبہ ہو تو پھر خود نہیں کرسکتا۔“ (فتاوی رضویہ، ج19، ص438-439، رضا فاؤنڈیشن لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: HAB-0669
تاریخ اجراء: 26جمادی الاول1447ھ/18نومبر 2025 ء