یورپ میں کھانے یا سامان کی ڈیلیوری کا کام کرنا کیسا؟

یورپ میں آن لائن ڈیلوری کا کام کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ یورپ میں ڈیلیوری کے کام کا کیا حکم ہے؟ اسٹوڈنٹس وغیرہ بہت بڑی تعداد یہ کرتی ہے۔ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آن لائن پورٹل میں سائن اپ کر کے خود کو رجسٹرڈ کیا جاتا ہے، پھر کنفرمیشن کے بعد آرڈرز ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس میں 90 فیصد آرڈرز کھانے اور Grocery Items کے ہوتے ہیں جن میں Pork اور Beer کے بھی آرڈرز ہوتے ہیں۔ رائیڈر کو جب آرڈر کا نوٹیفکیشن آتا ہے اُس وقت صرف دوکان کا نام جہاں سے وصول کرنا ہے اور جس جگہ ڈیلیور کرنا ہے، اُس کا وقت، فاصلہ اور کتنی پیمنٹ ملے گی بس یہ شو ہوتا ہے۔ آرڈر میں کیا چیز ہو گی؟ یہ عموماً نہیں شو ہوتا، ہاں دوکان کے نام سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس طرح کی چیز ہوگی۔ یوں ہی اگر آرڈر میں خالص الکوحل یا وائن ہو تو چونکہ آئی ڈی Verify کرنی ہوتی ہے اس لیے ان کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ آرڈر قبول کرنے کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے کہ کیا Items پک کر کے ڈیلیور کرنی ہیں۔ آرڈر قبول کرنے کے بعد بلا وجہ کینسل نہیں کیا جا سکتا، اگر چند بار آرڈر کینسل کریں تو آئی ڈی بلاک ہو جاتی ہے۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

قوانین شرعیہ کی رو سے جن چیزوں کا کھانا پینا خود مسلمان کے لیے حرام ہے، انہیں غیر مسلموں کو کھانے پینے کے لیے فراہم کرنا بھی ممنوع و ناجائز ہے؛ کیونکہ صحیح قول کے مطابق غیر مسلم بھی فروعی شرعی احکام کے مکلف ہوتے ہیں، لہذا انہیں کھانے پینے کے لیے حرام چیزیں فراہم کرنا گناہ پر تعاون کرنا ہے جو کہ بحکمِ قرآن کریم ممنوع ہے اور گناہ و معصیت کے کام پر اجارہ کرنا بھی شرعاً ناجائز و گناہ ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں جب معلوم ہے کہ اس کام میں خنزیر کے گوشت سے تیار شدہ چیزوں اور شراب وغیرہ حرام اشیا کی ڈیلیوری بھی کرنی ہوگی تو اس کام کے کرنے کی شرعاً اجازت نہیں؛ کیونکہ وہ ملازمت(Job)  جس میں ناجائز کام کرنا پڑے ، وہ خود حرام ہوتی ہے۔

ملک العلماء علامہ ابوبکر بن مسعود كاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:

ان حرمة الخمر و الخنزير ثابتة في حقهم كما هي ثابتة في حق المسلمين؛ لأنهم مخاطبون بالحرمات و هو الصحيح عند أهل الأصول

ترجمہ: شراب اور خنزیر کی حرمت غیر مسلموں کے حق میں بھی اسی طرح ثابت ہے جیسے مسلمانوں کے حق میں ثابت ہے؛ کیونکہ وہ بھی محرمات (حرام کردہ چیزوں کے احکام) کے مخاطب ہیں، اور یہی اصولیین کے نزدیک صحیح قول ہے۔(بدائع الصنائع، كتاب السير، فصل في بيان ما يعترض من الأسباب المحرمة للقتال، جلد 7، صفحہ 113، دار الكتب العلمية، بیروت)

علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 970ھ / 1562ء) لکھتے ہیں:

ان الكفار  مخاطبون  بالحرمات، و هو الصحيح من مذهب أصحابنا

ترجمہ: کفار محرمات کے مخاطب (مکلف) ہیں، اور یہی ہمارے اصحاب احناف کے مذہب سے صحیح قول ہے۔ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق، كتاب البيع ، باب البيع الفاسد ، جلد 6، صفحہ 77، دار الكتاب الإسلامي)

سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”مذہب معتمد میں کفار خود بھی مخاطب بالفروع ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 317، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ- اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾

ترجمہ کنز العرفان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بےشک اللہ شدید عذاب دینے والا ہے۔ (پارہ 6، سورۃ المائدہ ، آیت 2)

امام ابوبکر احمد بن علی قاضی جصاص حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 370ھ/ 980ء) لکھتے ہیں:”نهي عن  معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى“ترجمہ: (مذکورہ آیت مبارکہ میں) اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں پر دوسروں کی مدد کرنے سے ممانعت کی گئی ہے۔ (أحكام القرآن للجصاص، جلد 2، صفحہ 381، دار الكتب العلمية، بيروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”معصیت پر اعانت خود ممنوع و معصیت (ہے)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 17، صفحہ 149، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

علامہ ابوبکر بن مسعود كاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 587ھ / 1191ء) لکھتے ہیں:

الاستئجار  على  المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب و اللهو

ترجمہ: گناہوں پر اجارہ کرنا صحیح نہیں؛ کیونکہ یہ ایسی منفعت پر اجارہ کرنا ہے جس کا پورا کرنا شرعی طور پر ممکن نہیں، جیسے کسی کو لہو و لعب کے لیے اجرت پر لینا۔ (بدائع الصنائع، كتاب الإجارة، فصل في أنواع شرائط ركن الإجارة، جلد 4، صفحہ 189، دار الكتب العلمية، بیروت)

سیدی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”وہ (ملازمت) جس میں خود ناجائز کام کرنا پڑے... ایسی ملازمت خود حرام ہے، اگرچہ اس کی تنخواہ خالص مالِ حلال سے دی جائے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 515، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ / 1948ء) سے سوال ہوا کہ دو مسلمان ایسے ہوٹل میں ملازم ہوئے کہ جس میں گوشت خنزیر کا پکتا تھا، اور بھی ہر قسم کا گوشت پکتا تھا، ان دونوں میں سے ایک کا یہ کام تھا کہ ڈھکی ہوئی رکابی اٹھا کر دوسرے مسلمان کو دیتا، جو اسے میز پر رکھتا تھا، لیکن ان دونوں کو علم نہ تھا کہ اس ڈھکی ہوئی رکابی میں کیا ہے تو اب ان دونوں کے حق میں کیا حکم ہے؟ تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”جبکہ یہ معلوم تھا کہ اس ہوٹل میں خنزیر کا گوشت پکتا ہے اور ان دونوں کے متعلق یہ کام تھا کہ کھانا میز تک پہنچائیں، تو ایسے ہوٹل میں انہیں ملازمت ہی نہ چاہیے تھی، توبہ کر کے برادری میں شامل ہو جائیں۔ حدیث میں ہے:

التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ

(یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں)۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 3، صفحہ 270 - 271، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-921

تاریخ اجراء: 14 ربيع الآخر 1447ھ / 08 اکتوبر 2025ء