دو سال سے پہلے بچے کو دودھ چھڑانا کیسا؟

بچے کی عمر دو سال ہونے سے پہلے دودھ چھڑوانا گناہ ہے ؟

دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کہتا ہے: "اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:﴿ وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِیعنی: ماں اپنے بچے کو دو سال مکمل دودھ پلائے، لہذا اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو بچے کو دو سال تک ماں کا دودھ پلانا ضروری ہے۔"ہم نے یہ پوچھنا تھا کہ کیا واقعی میں دو سال تک دودھ پلانا ضروری ہے اگر اس سے پہلے چھڑوا دیا جائے تو کیا گناہ ہوگا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پہلے یہ مسئلہ جان لیں کہ ماں پر اپنے بچے کو دودھ پلانا کب واجب ہے اور کب واجب نہیں ؟ اس حوالے سے حکم شرعی یہ ہے کہ جب باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت نہ ہویا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یابچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے، تو ماں پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے اور اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں، مستحب ہے۔

اب رہا یہ مسئلہ کہ دودھ پلانے کی مدت کتنی ہے ؟ تو اس حوالے سے حکم شرعی یہ ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کو عورت کا دودھ پلانے کی مدت اسلامی سال کے اعتبارسے دوسال ہے، اس کے بعددودھ پلانا حرام ہے۔ دودھ پلانے کی مدت دو سال ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس مدت کے اندر اندر بچے کو دودھ پلایا جاسکتا ہے، نہ کہ عورت پر دو سال مکمل دودھ پلانا واجب ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی  جہاں دو سال کا ذکر فرمایا، وہاں اسے ارادہ و مشیت پر موقوف رکھا، یعنی اگر دودھ پلانے کی مدت کی تکمیل کا ارادہ ہو، تو دوسال تک دودھ پلائیں۔ لہذاگر بچے کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لیے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں دودھ بھی چھڑانا، جائز ہے۔ نیز یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مذکورہ مدت دودھ پلانے کے حوالے سے تھی، البتہ رضاعت کے احکام کے ثبوت کے لئے شریعت کی جانب سے دو سال چھ مہینے مقرر کئے گئے ہیں، یعنی دو سال کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے، مگر اڑھائی برس کے اندر اگر عورت بچے کو دودھ پلا دے گی، تواس کا اس بچے سے رضاعی رشتہ قائم ہوجائے گا۔

تنبیہ: قرآن پاک کی تفسیر و تشریح اپنی رائے سے کرنا سخت کبیرہ گناہ ہے اور ایسے شخص کے لیے حدیث مبارک میں جہنم کی وعید بیان ہوئی ہے، لہذا سوال میں بیان کردہ شخص سچی توبہ کرے اور آئندہ پوری احتیاط کرے۔

جزئیات:

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَؕ- ﴾ ترجمہ کنزالایمان: اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس اس کے لئے جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہے۔ (پارہ02، سورۃ البقرۃ، آیت 233)

مذكوره آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خازن میں لکھا ہے:

وهذا التحديد بالحولين ليس تحديد إيجاب، ويدل على ذلك قوله بعده: لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ فلما علق الإتمام بإرادتنا علمنا أن هذا الإتمام غير واجب، فثبت أن المقصود من هذا التجديد قطع النزاع بين الزوجين في مقدار زمن الرضاعة فقدر الله تعالى ذلك بالحولين حتى يرجعا إليه عند التنازع

 ترجمہ: آیت مبارکہ میں جو دوسال کی مدت مقرر کی گئی ہے، یہ وجوبی نہیں ہے، اس پر دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

"لمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ" (یعنی: اس کے لیے جو دودھ کی مدت کو پورا کرنا چاہے)۔ جب اللہ نے رضاعت کی تکمیل کو انسان کی اپنی خواہش و ارادہ پر موقوف کر دیا، تو معلوم ہوا کہ یہ تکمیل واجب نہیں ہے۔پس ثابت ہوا کہ اس تعیین (دو سال کی مدت مقرر کرنے) کا مقصد یہ ہے کہ شوہر اور  بیوی کے درمیان دودھ پلانے کی مدت کے بارے میں پیدا ہونے والے اختلاف کو ختم کیا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے دو سال کی مدت مقرر فرما دی تاکہ تنازع کی صورت میں وہ اسی کی طرف رجوع کریں۔ (تفسیر خازن، جلد01، صفحہ 166، دار الكتب العلمية - بيروت)

اسی طرح صراط الجنان میں ہے: ” اس کی وضاحت یہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔ دوسال مکمل کرانے کا حکم اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے کیونکہ دو سال کے بعد بچے کو دودھ پلانا ناجائز ہوتا ہے اگرچہ اڑھائی سال تک دودھ پلانے سے حرمت ِ رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔۔۔ماں خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت نہ ہویا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یابچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں مستحب ہے۔ دودھ پلانے میں دو سال کی مدت کا پورا کرنا لازم نہیں۔ اگر بچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لیے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا، جائز ہے۔ (صراط الجنان، جلد01، صفحہ356، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

مدتِ رضاعت کے متعلق تنویرالابصار و درِمختار میں ہے:

(ھو فی وقت مخصوص، حولان و نصف عندہ و حولان) فقط (عندھما و ھو الاصح) فتح، و بہ یفتی کما فی تصحیح القدوری۔ملخصا

 ترجمہ: یہ دودھ پلانا مخصوص وقت میں ہے، امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ڈھائی سال اور صاحبین رحمۃ اللہ علیہما کے نزدیک صرف دو سال، اور یہ اصح ہے، فتح۔ اور اسی پر فتوی دیا جاتا ہے جیسا کہ تصحیح القدوری میں ہے۔ (تنویر الابصارو درمختار، جلد4، صفحہ387، مطبوعہ، کوئٹہ)

بہار شریعت میں ہے: ”بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں۔ یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے لئے ڈھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے، مگر ڈھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی، حرمتِ نکاح ثابت ہوجائے گی اور اس کے بعد اگر پیا، تو حرمتِ نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں۔ (بہارِ شریعت، جلد2، صفحہ 36، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

قرآن پاک کی تفسیر اپنی رائے سے کرنا سخت گناہ ہے، چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث مبارک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من قال في القرآن برأيه: فليتبوأ مقعده من النار

ترجمہ: جس نے بغیر علم قرآن کی تفسیر کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنائے۔ (سنن ترمذی، باب ما جاء في الذي يفسر القرآن برأيه، ج5، ص66، دار الغرب الاسلامی، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: OKR -0140

تاریخ اجراء: 15 جمادی الاولی 1447 ھ/07نومبر 2025 ء