جِیاد نام رکھنا نیز اسکا مطلب

بچے کا نام جِیاد رکھنا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

جیاد نام رکھنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جِیاد:جیم کے زیر کے ساتھ لفظ جَیّدٌ کی جمع ہے، اور جید کا معنی ہے: عمدہ اوربہترفرد۔ اس معنی کے لحاظ سےیہ نام رکھ سکتے ہیں۔ البتہ! بہتریہ ہے کہ اولاصرف محمد،یاپھراحمدنام رکھیں اورپکارنے کے لیے احادیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے بچوں کا نام اچھے اور نیک لوگ مثلاً انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام،صحابہ کرام واولیائے کرام علیہم الرضوان کے نام پرر کھیں کہ اچھے نام کا اثر بھی اچھا ہوتا ہے اور یوں امیدہے کہ بزرگوں کی برکات بھی حاصل ہوں گی۔

القاموس الوحید میں ہے”جَادَ۔ جُوْدَۃً: عمدہ ہونا، بہتر ہونا۔ ھو جَیِّد، ج:جِیاد“ (القاموس الوحید، صفحہ 296، مطبوعہ لاھور)

الفردوس بماثور الخطاب میں ہے

تسموا بخياركم

ترجمہ: اپنے اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد 2، صفحہ58، حدیث: 2328، دار الكتب العلمية، بيروت)

نیک لوگوں کے نام کی برکات ملنے کے متعلق جمع الجوامع اور ابن عساکر میں ہے

و اللفظ للاول  ما من قوم یکون فیھم رجل صالح فیموت فیخلف فیھم مولود فیمسونہ باسمہ الاخلفھم اللہ بالحسنی

یعنی: کسی قوم میں ایک نیک آدمی ہو اور وہ وفات پا جائے اور اس قوم میں کوئی بچہ پیدا ہو اور اس نیک آدمی کے نام پر اس کا نام رکھا جائے تو اللہ پاک وہی نیک صفات اس میں بھی پیدا فرمائے گا۔(جمع الجوامع المعروف جامع الکبیر، حرف المیم، جلد 8، صفحہ 75، حدیث: 19523، مطبوعہ قاھرہ)

فتاوی رضویہ میں ہے "بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔" (فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 691، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: "انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔"(بہار شریعت، جلد 3، حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"اچھے نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے اچھا نام وہ ہے جو بے معنیٰ نہ ہو جیسے بدھوا، تلوا وغیرہ اور فخر و تکبر نہ پایا جائے جیسے بادشاہ، شہنشاہ وغیرہ اور نہ برے معنیٰ ہوں جیسے عاصی وغیرہ بہتر یہ ہے کہ انبیائے کرام یا حضور علیہ السلام کے صحابہ عظام ،اہلِ بیت اطہار کے ناموں پر نام رکھے جیسے ابراہیم، اسمٰعیل، عثمان، علی، حسین و حسن وغیرہ، عورتوں کے نام آسیہ، فاطمہ، عائشہ وغیرہ اور جو اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے وہ ان شاء اللہ بخشا جائے گا اور دنیا میں اس کی برکات دیکھے گا۔" (مرآۃ المناجیح، جلد5، صفحہ 30، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4198

تاریخ اجراء: 04ربیع الاول1447ھ/29اگست2025ء