رحیم اللہ نام رکھنا

رحیم اللہ نام رکھنا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

رحیم اللہ نام رکھنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

"رحیم" اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے، لیکن یہ ایسا نام نہیں جو اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ خاص ہو، قرآن پاک میں یہ نام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی آیا ہے اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے صفاتی ناموں میں بھی شامل ہے، لہٰذا بندے کے لیے "رحیم " کا اطلاق درست ہے اور رحیم، فعیل کا صیغہ ہے، جو بمعنی فاعل بھی ہوسکتا ہے اور بمعنی مفعول بھی لہذا جب اس کی اضافت اسم جلالت "اللہ" کی طرف ہو گی اور یہ بمعنی فاعل ہو تو اس کا مطلب ہو گا "اللہ تعالیٰ کا رحم کرنے والابندہ " اور اگر بمعنی مفعول ہو تو مطلب ہوگا "اللہ تعالی کارحم کیا ہوا بندہ"۔

لہٰذا اس معنی کے لحاظ سے " رحیمُ اللہ " نام رکھنا شرعاً جائز و درست ہے، تاہم بہتر یہ ہے کہ اولاً بیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں کیونکہ حدیث پاک میں محمد نام رکھنے کی فضیلت اور ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہا نام محمدرکھنے کی ہے، پھر پکارنے کے لیے مذکورہ بالا نام رکھ لیجئے۔

جو نام اللہ عزوجل کے ساتھ خاص نہیں ہیں، ان کےمتعلق درمختار میں ہے

”و جاز التسمیۃ بعلی و رشید و غیرھما من الاسماء المشترکۃ و یراد فی حقنا غیر ما یراد فی حق اللہ تعالی، لکن التسمیۃ بغیر ذلک فی زماننا اولی لان العوام یصغرونھا عند النداء“

ترجمہ: اسما ء مشترکہ میں سے علی، رشید اور ان کے علاوہ نام رکھنا جائز ہے، اور (ان اسماء سے) جو معنی اللہ تعالیٰ کے لیے مراد لیے جاتے ہیں ہمارے حق میں اس کے علاوہ معنی مراد لیے جائیں گے، لیکن ہمارے زمانے میں ایسے ناموں کے علاوہ نام رکھنا بہتر ہے کیونکہ عوام پکارتے وقت ان ناموں کی تصغیر کرتے ہیں۔ (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الحضر وا لاباحۃ، جلد9، صفحہ689 , 688، مطبوعہ: کوئٹہ)

اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

(لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ)

ترجمہ کنز العرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (پارہ 11، سورۃ التوبہ، آیۃ 128)

فتاوی مصطفویہ میں ہے"بعض اسماء الٰہیہ جو اللہ عزو جل کے لیے مخصوص ہیں، جیسے اللہ ،قدوس ، رحمن ،قیوم وغیرہ انہیں کا اطلاق غیر پر کفر ہے ، ان اسماء کا نہیں، جو اس کے ساتھ مخصوص نہیں جیسے عزیز، رحیم، کریم، عظیم، علیم، حی وغیرہ ۔" (فتاوی مصطفویہ ،صفحہ90،مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)

شرح ابن عقیل علی الفیۃ ابن مالک میں ہے

"وأما فعيل فإما أن يكون بمعنى فاعل أو بمعنى مفعول"

ترجمہ: اور بہرحال فعیل یا تو فاعل کے معنی میں ہو گا یا مفعول کے معنی میں۔ (شرح ابن عقیل علی الفیۃ ابن مالک، جلد 4، صفحہ 93، دار التراث، قاھرہ)

کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“

 ترجمہ: جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال،جلد 16،صفحہ 422، حدیث 45223، مؤسسة الرسالة،بیروت)

فتاوی رضویہ میں ہے "بہتر یہ ہے کہ صرف محمد یا احمد نام رکھے اس کے ساتھ جان وغیرہ اور کوئی لفظ نہ ملائے کہ فضائل تنہا انھیں اسمائے مبارَکہ کے وارِد ہوئے ہیں۔" (فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ 691،رضا فاؤنڈیشن لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ  اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو الفیضان مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4076

تاریخ اجراء:29ذوالحجۃالحرام1446ھ/26جون2025ء