بیل دوڑ کا مقابلہ کروانا، دیکھنا اور شریک ہونا کیسا؟

بیل دوڑ کے مقابلے کروانا، اس میں شریک ہونا اور دیکھنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں’’بیل دوڑ‘‘ کے مقابلے بہت زیادہ ہوتے ہیں، جس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اولاً مخصوص افراد یا پارٹیاں اس مقابلے کا اہتمام کرتی ہیں اور بیل رکھنے والے کئی افراد اس میں حصہ لیتے ہیں، جس کے بیل جیت جائیں، انہی پارٹیوں کی جانب سے اسے بھاری رقم اور مختلف انعامات دئیے جاتے ہیں۔

پھر جب بیل دوڑانے کی باری آتی ہے،تو عموماً اکٹھے دو بیلوں کے پیچھے مخصوص انداز میں ایک نشست باندھی جاتی ہے، اس پر ایک شخص کیل لگی چھڑی ہاتھ میں لئے بیٹھ جاتا ہےاور دوڑ کے دوران جو بیل تیز نہ دوڑے، اسے کیل چبھوتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے بیل زخمی ہوجاتا اور بسا اوقات اس کا خون بھی نکل آتا ہے۔ ان بیلوں نے ایک مخصوص جگہ تک دوڑنا ہوتا ہے، کئی مرتبہ یہ بیل بے قابو ہوکر اس جگہ سے ہٹ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے کافی نقصان ہوتا ہے، مثلاً بیلوں کا کسی اونچی جگہ سے گِر جانا،مجمع میں آکر لوگوں کو زخمی کرنا اور ان کا مالی نقصان کر دینا وغیرہ، پھر بیل جیتنے پر خوشی میں خوب ڈھول، گانے باجے اور ڈانس/ ناچنا بھی ہوتا ہے، نیز اس میں نمازوں کی بھی پرواہ نہیں کی جاتی۔ براہِ کرم شرعی رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق بیلوں کی دوڑ کے مقابلے کروانا اور اس میں شریک ہونا شرعاً کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں بیل دوڑ کا مقابلہ کئی شرعی خرابیوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام اور گناہ ہے، لہٰذا اس کا اہتمام کرنے اور اس میں شریک ہونے والے گنہگار ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ توبہ کریں اور آئندہ اس سے باز رہیں۔اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

لہو و لعب:

بیل دوڑ کے مقابلے جس طرح رائج ہیں، وہ عموماً لہو و لعب یعنی کھیل کود کے طور پر ہی ہوتے ہیں اور بطورِ لہو و لعب اس طرح کے مقابلے مکروہ و ممنوع اور اگر ان کے ساتھ دیگر ناجائز اموربھی ہوں (جن کی تفصیل نیچے آرہی ہے) تو حرام و گناہ ہیں۔

لہو و لعب سے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَهَا هُزُوًاؕ- اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ﴾

ترجمہ: اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کی راہ سے بہکادیں اور انہیں ہنسی مذاق بنالیں، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ (پ 21، س لقمان، آیت 6)

یونہی حدیثِ پاک میں چند کھیلوں کے علاوہ بقیہ کو باطل فرمایاگیا ہے۔ چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’کل ما یلھو بہ الرجل المسلم باطل، الا رمیہ بقوسہ، و تادیبہ فرسہ، و ملاعبتہ اھلہ، فانھن من الحق‘‘

ترجمہ: ہر وہ شئے جس سے مسلمان غفلت میں پڑ جائے، باطل ہے، مگر تیر اندازی، اپنے گھوڑے کو سدھانا اور زوجہ کے ساتھ ملاعبت کرنا، پس یہ تینوں حق ہیں۔(سنن ترمذی، ج 1، ص 293، مطبوعہ کراچی)

درِ مختار میں مختلف جانوروں کی دوڑ سے متعلق ہے:

’’(و لا باس بالمسابقة في الرمي و الفرس) و البغل و الحمار۔۔ (و الابل و) على (الاقدام) لانه من اسباب الجهاد‘‘

ترجمہ: اور تیر اندازی، گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ اور پیدل دوڑ میں مسابقت جائز ہے، کیونکہ یہ اسبابِ جہاد میں سے ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 6، ص 402، مطبوعہ، دار الفکر، بیروت)

اس کے تحت رد المحتار میں ہے:

’’اما اذا قصد التلهي او الفخر او لترى شجاعته فالظاهر الكراهة، لان الاعمال بالنيات فكما يكون المباح طاعة بالنية تصير الطاعة معصية بالنية‘‘

ترجمہ: بہرحال جب مسابقت سے مقصود لہو و لعب،فخریا اپنی بہادری دکھانا مقصود ہو، تو یہ مکروہ ہے، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، پس جس طرح مباح چیز نیت کے سبب طاعت بن جاتی ہے،یونہی نیت کے سبب طاعت بھی معصیت بن جاتی ہے۔ (رد المحتار، ج 6، ص 402، مطبوعہ، دار الفکر، بیروت)

جد الممتار میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

’’ان المسابقۃ فیما یرجع الی تقویۃ الدین یحل بجعل اذا قصد بہ ذلک، لا فیما ھو معصیۃ بنفسہ او بقصدھم التلاھی او التفاخر‘‘

ترجمہ: بے شک جو چیزیں دین کی تقویت کا ذریعہ ہوں، ان میں مسابقت انعام کے ساتھ بھی حلال ہے،جبکہ دین کی تقویت ہی مقصود ہو،نہ کہ ان چیزوں میں جو بذاتِ خود گناہ ہوں یا ان سے مقصود لہو و لعب یا فخر ہو۔ (جد الممتار، ج 7، ص 84، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’مسابقت کا مطلب یہ ہے کہ چند شخص آپس میں یہ طے کریں کہ کون آگے بڑھ جاتا ہے جو سبقت لے جائے اس کو یہ دیاجائے گا۔۔جس طرح گھوڑ دوڑ میں ہوا کرتا ہے کہ چندگھوڑے ایک ساتھ بھگائے جاتے ہیں جو آگے نکل جاتا ہے، اس کو ایک رقم یا کوئی چیز دی جاتی ہے۔اونٹ اور آدمیوں کی دوڑبھی جائز ہے کیونکہ اونٹ بھی اسباب جہاد میں ہے یعنی یہ جہاد کے لیے کار آمد چیز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان دوڑوں سے مقصود جہاد کی طیاری ہے، لہو و لعب مقصود نہیں اگر محض کھیل کے لیے ایسا کرتا ہے تو مکروہ ہے اسی طرح اگر فخر اور اپنی بڑائی مقصود ہویا اپنی شجاعت و بہادری کا اظہار مقصود ہو تو یہ بھی مکروہ ہے۔‘‘ (بھارِ شریعت، ج 3، ص 607، مطبوعہ، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اگر کوئی کھیل ناجائز امور پر مشتمل ہویا کسی واجب کی ادائیگی میں مخل ہو، تو وہ بالاجماع حرام ہے۔ چنانچہ درِ مختار میں ایک خاص کھیل کے بارے میں اختلاف ائمہ بیان کرنے کے بعد فرمایا:

’’و ھذا اذا لم یقامر۔۔ و لم یخل بواجب، و الا فحرام بالاجماع‘‘

ترجمہ: یہ اختلاف اس صورت میں ہے جب اس کھیل میں جوا نہ ہو اور وہ کسی واجب کی ادائیگی میں مخل نہ ہو،ورنہ باالاجماع حرام ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 6، ص 394، دار الفکر، بیروت)

جانوروں کو ایذا / تکلیف دینا:

اس دوڑ میں بیلوں کو تیز بھگانے کے لئے کیل وغیرہ چبھو کر ناحق ایذا پہنچائی جاتی ہےجو ظلم اور گناہ ہے، پھر کسی بھی جانورکوویسے ہی ایذا پہنچانا، ناجائز ہے، تو ایک ممنوع کام کے لئے ایذا دینا کس قدر سنگین ہو گا؟ حیوانات کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ﴾

ترجمہ کنزالعرفان: ’’اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں ہے اور نہ ہی اپنے پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ ہے، مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں۔‘‘ (پ 7، س الانعام، آیت 38)

اس آیت کے تحت تفسیرِ قرطبی میں ہے:

’’ای هم جماعات مثلكم في ان اللہ عز و جل خلقهم و تكفل بارزاقهم و عدل عليهم، فلا ينبغي ان تظلموهم و لا تجاوزوا فيهم ما امرتم به‘‘

ترجمہ:یعنی اُن کی تمہاری طرح ہی جماعتیں ہیں، یوں کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اُن کے رزق کو اپنے ذمہ کرم پر لیا اور اُن میں عدل قائم کیا، پس یہ ہرگز مناسب نہیں کہ تم اُن جانوروں پر ظلم کرو، نیز اُن کے بارے میں جو تمہیں حکم دیا گیا ہے، اُس سے تجاوُز نہ کرو۔ (تفسیرِقرطبی، ج 6، ص 419 تا 420، دار الکتب المصریۃ، قاهرہ)

حدیثِ پاک سے ثابت ہے کہ ایک خاتون کو اس وجہ سے عذاب دیا گیا کہ اس نے بلاوجہِ شرعی بلی کو ایذا پہنچائی تھی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’عذبت امراة في هرة سجنتها حتى ماتت، فدخلت فيها النار، لا هي اطعمتها ولا سقتها، اذ حبستها، ولا هي تركتها تاكل من خشاش الارض‘‘

ترجمہ: ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، جس نے اس کو قید کر رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بلی بھوکی پیاسی مرگئی، اس وجہ سے وہ (عورت) جہنم میں داخل ہوئی، کہ نہ تو قید میں رکھے ہوئے اس نے اسے خود کھلایا پلایا، اور نہ ہی اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں کو کھا کر اپنی جان بچالیتی۔ (صحیح البخاری، ج 4، ص 176، دار طوق النجاۃ)

اس حدیثِ پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ پالے ہوئے جانور کا بھی حق ہے کہ اسے کھانا پانی دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ جانوروں پر ظلم بھی گناہ ہے۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ جانور پر ظلم انسان کے ظلم سے بدتر ہے کیونکہ انسان زبان والا ہے اپنے دکھ دوسروں سے کہہ سکتا ہے بے زبان جانور خدا کے سواکس سے کہے۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح، ج 3، ص 100، مطبوعہ، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

اور اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’علماء فرماتے ہیں: مسلمان پر ظلم کرنے سے ذمی کافر پر جو پناہ سلطنت اسلام میں رہتا ہو ظلم کرنا سخت تر ہے اور ذمی کافر پر ظلم کرنے سے بھی جانور پر ظلم کرنا سخت تر ہے۔ درمختار میں ہے:

’’جاز رکوب الثور و تحمیلہ والکراب علی الحمیر بلاجھد وضرب، اذ ظلم الدابۃ اشد من الذمی وظلم الذمی اشد من المسلم‘‘

ترجمہ: بیل پر سوار ہونا اور بوجھ لادنا اور گدھے کو ہل میں جوتنا جائز ہے جبکہ مشقت وتشدد کے بغیر ہو، کیونکہ جانور پرظلم ذمی سے زیادہ برا ہے اور ذمی پر ظلم مسلمان پر ظلم سے زیادہ برا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 16، ص 315، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

نمازوں کی پرواہ نہ کرنا:

ہر عاقل بالغ مسلمان پر پانچ وقت کی نماز فرض عین ہے، جان بوجھ کر ایک نماز کا ترک بھی حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ پس جو کھیل نماز جیسے اہم ترین فرض کے ترک کا سبب بنے، تو وہ کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ نمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا﴾

ترجمہ کنزالعرفان:’’تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی، تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے۔‘‘ (پ 16، س مریم، آیت 59)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’اول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ الصلاۃ،فان صلحت صلح لہ سائر عملہ وان فسدت فسد سائر عملہ‘‘

ترجمہ: کے فرمان کے مطابق کل بروزِ قیامت اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی کے بارے میں سوال ہوگا،اگر یہ درست ہوئی،تو بقیہ اعمال بھی ٹھیک ہوں گےاوریہی درست نہ ہوئی،توبقیہ اعمال بھی درست نہ رہیں گے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، ج 2، ص 240، مطبوعہ القاھرہ)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو کام نماز سے روکے وہ کھیل کود ہے، خواہ بظاہر کتنا ہی اہم ہو۔‘‘ (مراٰۃ المناجیح، ج 2، ص 333، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

ڈھول، گانے باجے اور ڈانس / ناچ:

مقابلہ جیتنے پر ڈھول، گانے باجے اور ڈانس کا سلسلہ ہوتا ہے اور یہ سب چیزیں، ناجائز اور گناہ ہیں۔ ڈھول کی حرمت کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”ان اللہ حرم علیکم الخمر و المیسر و الکوبۃ و قال کل مسکر حرام“

ترجمہ: اﷲ تعالیٰ نے شراب اور جوا اور کوبہ (ڈھول) حرام کیا اور فرمایا: ہر نشہ والی چیز حرام ہے۔ (سنن الکبری للبیھقی، جلد 10، صفحہ 360، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

خوشی کے موقع پر باجے کی آواز کو ملعون قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ مسند بزار میں ہے:

’’صوتان ملعونان في الدنيا و الآخرة، مزمار عند نعمة، ورنة عند مصيبة‘‘

ترجمہ: دو آوازیں دنیا و آخرت میں ملعون ہیں، نعمت کے وقت باجے کی آواز، اور مصیبت کے وقت رونے کی آواز۔ (مسند بزار، مسند ابی حمزہ انس بن مالک، جلد 14، صفحہ 62، مطبوعہ مدینۃ المنورہ)

اور گانوں کے متعلق سنن ابی داؤد و شعب الایمان میں ہے:

’’الغناء ینبت النفاق فی القلب، کما ینبت الماء الزرع‘‘

ترجمہ: گانا دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے، جیسے پانی کھیتی کو اُگاتا ہے۔ (شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 108، مطبوعہ ریاض)

علامہ محمد امین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:

’’و استماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذلک حرام، و ان سمع بغتۃ یکون معذورا ویجب ان یجتھد ان لایسمع‘‘

ترجمہ: دف بجانے اور بانسری اور ا ن کے علاوہ (دیگر آلاتِ موسیقی)کی آواز سنناحرام ہے اور اگر اچانک سننے میں آگئی تو معذور ہےاور اس پرواجب ہے کہ نہ سننے کی کوشش کرے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، ج 9، ص 651، مطبوعہ کوئٹہ)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ”اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 98، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ناجائز کام کا تماشادیکھنے کا حکم:

اوپر معلوم ہوا کہ اپنی تمام تفصیل کے ساتھ اس طرح بیلوں کی دوڑکا مقابلہ ناجائز و گناہ ہے، پس جب یہ کام ناجائز ہے، تو اس کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ ناجائز کام پر خوش ہو کر اس کا حصہ بننا، اس کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے۔ چنانچہ حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

’’الفرجۃ علی المحرم حرام‘‘

ترجمہ: حرام پر خوش ہونا بھی حرام ہے۔ (حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار، مقدمہ، ج 1، ص 31، دار المعرفۃ، بیروت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشاد فرماتے ہیں: ”ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے، بندر نچانا حرام ہے، اس کا تماشا دیکھنا بھی حرام ہے،درمختاروحاشیہ علامہ طحطاوی میں ان مسائل کی تصریح ہے، آج کل لوگ ان سے غافل ہیں، متقی لوگ جن کو شریعت کی احتیاط ہے، ناواقفی سے ریچھ یا بند ر کا تماشا یا مرغوں کی پالی (یعنی لڑائی) دیکھتے ہیں اورنہیں جانتے کہ اس سے گنہگار ہوتے ہیں۔ حدیث میں ارشاد ہے کہ اگر کوئی مجمع خیرکا ہو اور وہ نہ جانے پایا اور خبر ملنے پر اِس نے افسوس کیا تو اُتناہی ثواب ملے گا جتنا حاضرین کو اور اگر مجمع شرکا ہو، اُس نے اپنے نہ جانے پر افسوس کیا تو جو گناہ اُن حاضرین پر ہوگا وہ اِس پر بھی (ہوگا)۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 286، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فرحان افضل عطاری مدنی

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: Pin-7594

تاریخ اجراء: 05 ذو الحجۃ الحرام 1446 ھ / 02 جون 2025 ء