
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے كہ میں نے ایک ویڈیو دیکھی ہے، جس میں بیوپاری واضح طور پر بتارہا ہے کہ اس کے پاس ایک ایسا نر بکرا ہے ،جس کے تھن بھی ہیں اور ان میں کچھ نہ کچھ دودھ بھی آتا ہے ،پھر بیوپاری اسی دودھ سے چائے بناتا ہے ۔ اس وقت بعض مین سٹریم میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا پر بکثرت ایسی ویڈیوز موجود ہیں، جہاں نر بکروں کا دودھ دینا بیان کیا گیا ہے۔اب شرعی رہنمائی درکار ہے کہ کیا ایسے دودھ کو پینا حلال ہو گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
فقہائے کرام نے اس چیز کی صراحت فرمائی ہےکہ اگر کسی بکرے کو دودھ اُتر آئے، تو یہ دودھ حلال ہے ، اور اس کو پینا جائز ہے ،کیونکہ شریعت مطہرہ نے کسی بھی حلال جانور کے چند مستثنیٰ اجزاء مثلاً: ذَکر ،فرج اور آنتوں وغیرہ کو ممنوع قرار دیا ہےاور نر کو اترنے والا دودھ ان ممنوعہ اجزاء کے قبیل سے نہیں ہے ۔
چنانچہ فتاوی خیریہ میں ہے :
’’سئل: فيما لو نزل لفحل الغنم لبن، هل هو طاهر يحل شربه أم لا؟‘‘
’’أجاب: لا شك في طهارته؛ لما في الجوهرة من أن سؤرمأكول اللحم طاهر كلبنه، والظاهر منه حل شربه، ولم أر من صرح به والله أعلم
ترجمہ:سوال :اگر نر بکرے کے تھنوں سے دودھ اُتر آئے تو کیا وہ دودھ پاک ہے اور اس کا پینا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:اس کی پاکی میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ "الجوهرة" میں ہے کہ گوشت کھائےجانے والے جانور کا جھوٹا (یعنی بچا ہوا ) پاک ہوتا ہے،جیسے اس کا دودھ۔ اور ظاہر یہی ہے کہ اس کا پینا بھی جائز ہے،البتہ میں نے کسی کو اس بارے میں صراحت کرتے ہوئے نہیں پایا ۔(فتاوی خیریہ ،جلد1،صفحہ49،انوار الازھر)
امام اہلسنت سیدنا امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن متوفی 1340 ہجری مذکورہ بالا عبارت کے تحت لکھتے ہیں :
’’لا باعث علي الحرمة اذ ليس في بدن الغنم ما يحرم اكله حتى الذكر والفرج وانما اكلهما مكروه للاستقذار وهنا لا وجه للكراهة ايضا والاصل الاباحة ‘‘
ترجمہ:حرمت کا کوئی باعث نہیں، کیونکہ بکرے کے جسم میں کوئی ایسا عضو نہیں جس کا کھانا حرام ہو، حتیٰ کہ نر کا ذکر(عضوِ تناسل) اور فرج بھی۔ البتہ ان دونوں کا کھانا نفرت اور گھن کی وجہ سے مکروہ ہے، اور یہاں (یعنی دودھ کے معاملے میں) تو کراہت کی بھی کوئی وجہ موجود نہیں، اور اصل (قاعدہ) یہی ہے کہ چیز مباح (جائز) ہوتی ہے۔(التعلیقات الرضویہ علی الفتاوی الخیریہ ،صفحہ 1،مخطوط)
فقیہ اعظم مفتی محمد نور اللہ نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فتاوی نوریہ میں فتاوی خیریہ کے حوالے سے اس مسئلہ کو ذکر کر کے برقرار رکھا ہے ۔(فتاوی نوریہ، جلد1،صفحہ593،دار االعلوم حنفیہ فریدیہ،بصیر پور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:JTL-2301
تاریخ اجراء:28ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 26 مئی 2025 ء