
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Aqs-2741
تاریخ اجراء:11 شعبان 1446 ھ/ 10 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بازار میں بِکنے والی مچھلیاں مردہ ہوتی ہیں اور مردار کھانا حرام ہے، تو یہ مچھلیاں کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ سائل: محمد عمران (جامع کلاتھ،کراچی)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں بازار میں شکار کر کے بیچی جانے والی مُردہ مچھلیاں کھانا حلال ہے اور یہ مُردار نہیں، کیونکہ مُردار وہ جانور ہوتا ہے کہ جسے حلال کرنے کے لیے ذبح کرنا فرض ہو، لیکن وہ ذبح کیے بغیر مر جائے، جبکہ مچھلی کو ذبح کرنا فرض نہیں، کیونکہ حدیث پاک میں دو مُردوں یعنی مچھلی اور ٹِڈی کو ذبح کیے بغیر کھانا حلال فرمایا گیا ہے۔ ایک اور حدیث پاک کے مطابق صرف وہ مچھلی حرام ہے، جو پانی میں طبعی یعنی قدرتی طور پر خود ہی مر کر الٹی تیر جائے یعنی جس کا پیٹ اوپر کی طرف ہو اور اس کے مرنے کا کوئی ظاہری سبب معلوم نہ ہو ، نہ ہی کوئی ایسی نشانی موجود ہو، جس سے اس کے مرنے کا کوئی ظاہری سبب معلوم ہوتا ہو۔ لہٰذا جو مچھلی کسی ظاہری سبب سے مثلاً شکار کرنے، دوائی ڈالنے، پانی کم ہو جانے یا کسی دوسری وجہ سے مرے، وہ مُردار نہیں، حلال ہے اور بازار میں بکنے والی مچھلیاں بھی شکار کی ہوئی ہوتی ہیں، لہٰذا یہ حلال ہیں۔
مردار حرام ہونے کے متعلق قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے : ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ﴾ ترجمۂ کنز الایمان : ”تم پر حرام ہے مردار۔“(پارہ 06، سورۃ المائدۃ، الاٰیۃ: 03)
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تفسیرِ نعیمی میں فرماتے ہیں :”﴿مَیْتَةُ﴾ موت کا صفتِ مشبہ ہے، یعنی مردار۔ یہ وہ جانور ہے، جس کا ذبح کرنا فرض ہو مگر بغیر ذبح ویسے ہی مر جائے ۔۔۔ مچھلی حلال ہے کہ اس کا ذبح کرنا فرض تھا ہی نہیں۔ ملخصا“(تفسیرِ نعیمی، ج6، ص182، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ، لاھور)
حدیث شریف میں ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا :”اُحلت لكم مَيتتان و دَمان، فأما الميتتان، فالحُوت و الجَرَاد، و أما الدمان، فالكبِد و الطِحال“ ترجمہ : تمہارے لیے دو مُردے اور دو خون حلا ل کر دیے گئے ہیں ، دو مُردے مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تِلی ہیں۔(سنن ابن ماجہ، ج2، ص 1102، حدیث 3314، مطبوعہ دار إحياء الكتب العربية، بیروت)
دوسری حدیث شریف میں ہے :رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا :”ما ألقى البحر أو جزر عنه فكلوه، و ما مات فيه وطَفَا، فلا تأكلوه“ ترجمہ: جسے سمندر پھینک دے یا جس سے پانی اتر جائے ، اسے کھاؤ اور جو سمندر میں مر کر (اُلٹی) تیر جائے، اسے نہ کھاؤ۔(سنن ابی داؤد، ج 3، ص358، حدیث 3815، مطبوعہ المكتبة العصرية، صيدا، بيروت)
اس حدیث پاک کے تحت مرقاۃ شرحِ مشکاۃ میں ہے :”(طَفا): أي ارتفع فوق الماء بعد أن مات“ ترجمہ: الٹی تیر جائے، یعنی مرنے کے بعد پانی کے اوپر آ جائے۔(مرقاۃ المفاتیح، ج 7، ص 723، حدیث 4133، مطبوعہ ملتان)
کونسی مچھلی حلال ہے اور کونسی حرام، اس کے متعلق تنویر الابصار و درِ مختار میں ہے :”یحل (۔۔۔ السمک) الذي مات بآفة۔۔۔ (غیرُ الطافی) علی وجہ الماء الذی مات حتف انفہ و ھو ما بطْنہ مِن فوقُ ، فلو ظھرُہ من فوقُ فلیس بطافٍ فیؤکل، ملخصا“ ترجمہ : جو مچھلی کسی آفت کی وجہ سے مرے، وہ حلال ہے، پانی کی سطح پر اُلٹی تیر جانے والی کے علاوہ، جو اپنی موت خود مرے اور وہ ایسی مچھلی ہوتی ہے کہ جس کا پیٹ اوپر کی طرف ہو، لہٰذا اگر اس کی پُشت اوپر کی طرف ہو، تو وہ الٹی تیرنے والی نہیں، اسے کھایا جا سکتا ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار، ج 9، ص 511، مطبوعہ کوئٹہ)
جو مچھلی کسی معلوم ظاہری سبب سے مری ہو، وہ ذبح کیے بغیر حلال ہے۔ چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے: ”الأصل فيه أنه متى عرف سبب موته كلفظة البحر۔۔۔ فماتت حل أكلها، لأن سبب موتها معلوم۔۔۔ (و حل بلا ذكاة كالجراد)، ملخصا“ ترجمہ: اس مسئلے کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جب مچھلی کے مرنے کا کوئی سبب معلوم ہو جیسا کہ وہ مچھلی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا، تو وہ مر گئی، اسے کھانا حلال ہے، کیونکہ اس کی موت کا سبب معلوم ہے اور وہ ٹڈی کی طرح ذبح کیے بغیر حلال ہے۔(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق و حاشية الشلبی، ج 6، ص 471، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
صرف وہ مچھلی حرام ہے کہ جس کی موت کا کوئی ظاہری سبب معلوم نہ ہو، نہ ہی ایسی نشانی ہو ، جس سے اس کی موت کا کوئی ظاہری سبب معلوم ہوتا ہو۔ چنانچہ ”مچھلی کے عجائبات“ میں ”فیصلہ فقہی بورڈ ، دہلی“ (۱۶ جُمادَی الاُولٰی ۱۴۲۴ھ مطابق 17/07/2003) کے حوالے سے ہے: ”حرام صرف وہ مچھلی ہوتی ہے، جس کے مرنے کا کوئی سببِ ظاہر (ظاہری سبب) نہ معلوم ہو، نہ ہی کوئی علامت (نشانی) سببِ موت پر دال (ثبوت بنتی) ہو، یعنی یہ متعیّن (طے) ہو کہ وہ اپنی موت آپ مر کر اُلٹ گئی ہے۔“(مچھلی کے عجائبات، ص 19۔ 20، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”پانی کے جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے ۔جو مچھلی پانی میں مر کر تیر گئی یعنی جو بغیر مارے اپنے آپ مر کر پانی کی سطح پر الٹ گئی ، وہ حرام ہے۔ مچھلی کو مارا اور وہ مر کر الٹی تیرنے لگی ، یہ حرام نہیں۔ ٹِڈِّی بھی حلال ہے۔ مچھلی اور ٹڈی یہ دونوں بغیر ذبح حلال ہیں، جیسا کہ حدیث میں فرمایا کہ دو مُردے حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی۔ (اگلا مسئلہ:) پانی کی گرمی یا سردی سے مچھلی مرگئی یا مچھلی کو ڈورے میں باندھ کر پانی میں ڈال دیا اور مرگئی یا جال میں پھنس کر مرگئی یا پانی میں کوئی ایسی چیز ڈال دی، جس سے مچھلیاں مر گئیں اور یہ معلوم ہے کہ اوس چیز کے ڈالنے سے مریں یا گھڑے یا گڑھے میں مچھلی پکڑ کر ڈال دی اور اوس میں پانی تھوڑا تھا، اِس وجہ سے یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے مر گئی، ان سب صورتوں میں وہ مری ہوئی مچھلی حلال ہے۔“(بھارِ شریعت، حصہ 15، ج 3، ص 324۔ 325، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم