بیٹی کے گھر کھانا کھانے کا حکم

بیٹیوں کے گھر سے کھانا کھانے کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کچھ لوگ بیٹیوں کے گھر سے کھانا نہیں کھاتے اور کہتے ہیں کہ یہ دین میں جائز نہیں اور ان کے گھر کا پانی پینا بھی حرام ہے، یہ سوچنا اور ایسا کرنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جب تک ممانعت کی کوئی شرعی وجہ نہ ہو، والدین کا اپنی بیٹیوں کے گھر سے کھانا اور پینا شرعاً جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بلاوجہ شرعی، محض اپنی اٹکل سے کسی بھی جائز چیز کو ناجائز کہنا بھی جائز نہیں ہے کہ ناجائزو حرام وہی ہے جسے اللہ تعالی اور اس کےحبیب صلی اللہ علیہ و سلم نے ناجائز و حرام فرمایا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

(وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَؕ- اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ)

ترجمہ کنزالایمان: اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو، بےشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہوگا۔ (القرآن، پارہ 14، سورۃ النحل، آیت 116)

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”زمانہ جاہلیت کے لوگ اپنی طرف سے بعض چیزوں کو حلال، بعض چیزوں کو حرام کرلیا کرتے تھے اور اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کردیا کرتے تھے، اس آیت میں اس کی ممانعت فرمائی گئی اور اس کو اللہ تعالی پر افترا فرمایا گیا اور افترا کرنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ بیشک جو اللہ تعالی پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہ ہوں گے۔ آج کل بھی لوگ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام بتادیتے ہیں جیسے میلا د شریف کی شیرینی، فاتحہ، گیارہویں، عرس وغیرہ ایصال ثواب کی چیزیں جن کی حرمت شریعت میں وارد نہیں ہوئی انہیں اس آیت کے حکم سے ڈرنا چاہیے کہ ایسی چیزوں کی نسبت یہ کہہ دینا کہ یہ شرعا حرام ہیں، اللہ تعالی پر افترا کرنا ہے۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد 05، صفحہ 397، 398،مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

فتاوی رضویہ میں ہے ”حرام وہ ہے جسے خدا اور رسول نے حرام فرمایا اور واجب وہ ہے جسے خدا اور رسول نے واجب کہا، حکم دیا لیکن وہ چیزیں جن کا خدا اور رسول نے نہ حکم دیا نہ منع کیا وہ سب جائز ہیں انہیں حرام کہنے والا خدا اور رسول پر افترا کرتا ہے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 09، صفحہ 135، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4086

تاریخ اجراء: 06 صفر المظفر 1447ھ / 01 اگست 2025ء