بھیڑ کے بال والی (Lanolin) Wool wax کا شرعی حکم

بھیڑ کے بالوں سے حاصل شدہ (Lanolin) Wool wax  کا شرعی حکم

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں کہ لینولن (Lanolin) یہ ایک موم کی طرح کا مادہ ہے جو کہ بھیڑ کی اون سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اسے wool wax اور sheep grease بھی کہا جاتا ہے۔ بھیڑ سے اون اتار کر پھر اس سے لینولن بنائی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھیڑ کی اون سے حاصل کردہ لینولن کیا پاک ہے یا ناپاک اور یہ حلال ہے یا حرام ؟ نیز یہ بھی بتا دیں کہ زندہ بھیڑ سے اون حاصل کر کے یہ بنائی جائے، اس کا حکم اور مردار یا ذبح شدہ بھیڑ سے لی گئی اون سے بننے والی لینولن کا حکم کیا ایک جیسا ہوگا یا مختلف ؟                                                                                                                                    سائل: ڈاکٹر علی (لاہور)

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بھیڑ کے بالوں سے بنائی گئی لینولن مطلقا پاک ہے، البتہ حلال وہی لینولن ہوگی جو شرعی طریقے سے ذبح شدہ بھیڑ کے بالوں سے بنائی گئی ہو، لہٰذا اگر زندہ بھیڑ کے بال کاٹ کر ان سے لینولن بنائی گئی یا ذبح شرعی کے بغیر مر جانے والی بھیڑ(چاہے وہ مردار ہو یا کافر غیر کتابی کی ذبیحہ ہو یا مشینی ذبیحہ ہو، ان سب) کے بال سے لینولن بنائی گئی، تو وہ پاک ہونے کے باوجود حرام ہوگی۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ لینولن چونکہ بھیڑ کے بالوں سے بنائی جاتی ہے، اس لئے پاک یا ناپاک ہونے کے حوالے سے اور حلال یا حرام ہونے کے حوالے سے اس کا حکم بھیڑ کے بالوں والا ہی ہوگا۔ اور جانور کے بال اُن اجزاء میں سے ہوتے ہیں جن میں خون نہیں ہوتا اور ان میں حیات سرایت نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو کاٹنے سے تکلیف نہیں ہوتی۔ اور خنزیر کے علاوہ کسی بھی جانور کے ایسے اجزاء ہمیشہ پاک ہی شمار ہوتے ہیں۔ ان کی پاکی کے لئے نہ تو جانور کا حلال ہونا ضروری ہے اور نہ جانور کو ذبح شرعی کرنا ضروری ہے، لہٰذا مردار بھیڑ کے بال بھی پاک ہیں۔ یونہی زندہ بھیڑسے بال کاٹ کر جدا کر لئے گئے تو وہ بھی پاک ہیں۔

اور جہاں تک حلال و کھانے پینے کے جواز کا تعلق ہے تو جانور کے ایسے اجزاء پاک ہونے کے باوجود اسی وقت حلا ل ہوں گے، جبکہ جانور بھی حلال ہو اور اسے شرعی طریقے سے ذبح بھی کر لیا گیا ہو، کیونکہ تذکیہ شرعیہ کے بغیر جانور کا کوئی بھی جزو حلال نہیں ہوتا، لہٰذا اگر زندہ بھیڑ سے بال جدا کر لئے گئے، یا بغیر ذبح شرعی کے مر جانے والی بھیڑ سے بال جدا کیے گئے، تو ایسے بال پاک ہونے کے باوجود حرام ہوں گے اور ان بالوں سے بنائی گئی لینولن بھی حلال نہیں ہوگی۔

جانور کے بال پاک ہونے کے متعلق دلائل: 

جانور کے بال اور وہ تمام اجزاء جن میں حیات نہیں ہوتی(جیسے ہڈی، کھُر، بال  اور پَر وغیرہ) وہ پاک ہوتے ہیں اور کھانے پینے کے علاوہ ان اجزاء سے انتفاع کر سکتے ہیں اگرچہ وہ مردار جانو رسے حاصل کیے گئے ہوں۔ اس کے متعلق صحیحین میں حدیث پاک ہے:

واللفظ للبخاری ”عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: "وجد النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم شاة ميتة، أعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، فقال النبي صلى الله عليه وآلہ وسلم: «هلا انتفعتم بجلدها؟» قالوا: إنها ميتة: قال: «إنما حرم أكلها»“

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بکری کو مردار پایا، جو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی کو صدقہ میں دی گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "تم نے اس کی کھال سے نفع کیوں نہیں اٹھایا؟"صحابہ نے عرض کیا: "یہ تو مردار ہے!"نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اس کا فقط کھانا حرام کیا گیا ہے۔ (صحيح البخاري، جلد 02، صفحہ 128، دار طوق النجاۃ)

مشہور محدث شیخ ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

”وفي شرح السنة فيه دليل لمن ذهب أي: أن ما عدا المأكول غير محرم الانتفاع كالشعر والسن والقرن، ونحوها وقالوا: لا حياة فيها فلا تنجس بموت الحيوان “

 یعنی: شرح السنۃ میں ہے کہ اس حدیث میں دلیل ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کھائے جانے کے قابل اعضاء کے علاوہ دیگر اجزاء مثلاً: بال، دانت، سینگ وغیرہ سے نفع اٹھاناحرام نہیں ہے۔ اور علماء نے فرمایا ہے کہ ان میں (یعنی ان اعضاء میں) زندگی نہیں ہوتی، اس لیے جانور کے مرنے سے یہ نجس (ناپاک) نہیں ہوتے۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، جلد 02، صفحہ 465، دار الفکر، بیروت)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تفسیر نعیمی میں لکھتے ہیں: ”(قرآن پاک کی آیت میں) یَّطْعَمُهٗۤ فرما کر یہ بتایا کہ ان مذکورہ چیزوں میں کھانا تو سب کا حرام ہے۔ اور طرح استعمال حلال جیسے مردار کہ اس کی کھال بال ناخن سینگ کھر وغیرہ دوسرے استعمال میں آ سکتی ہیں۔“ (تفسیر نعیمی، جلد 08، صفحہ 177، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:

” وإن صلى ومعه شيء من أصوافها وشعورها أو عظم من عظامها فصلاته تامة عندنا۔۔۔(ولنا) أنه مبان من الحي فلا يتألم به ويجوز الانتفاع، وقال - صلى الله عليه وآلہ وسلم -: «ما أبين من الحي فهو ميت» فلو كان فيه حياة لما جاز الانتفاع به،۔۔۔ فلا يتنجس بالموت وإليه أشار رسول الله - صلى الله عليه وآلہ وسلم - حين «مر بشاة ملقاة لميمونة فقال: هلا انتفعتم بإهابها، فقيل: إنها ميتة فقال: إنما حرم من الميتة أكلها» وهذا نص على أن ما لا يدخل تحت مصلحة الأكل لا يتنجس بالموت، ملتقطا “

یعنی: اگر کسی نے نماز پڑھی اور اس کے ساتھ مردار جانور کی اُون، بال یا ان کی ہڈیوں میں سے کوئی ہڈی تھی، تو ہمارے نزدیک اس کی نمازدرست ہے۔(اور دلیل ہمارے پاس یہ ہے کہ) یہ (اعضاء) زندہ جانور سے جدا کیے جائیں تو جانور کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی، اور ان سے نفع حاصل کرنا، جائز ہے۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو چیز زندہ (جانور) سے کاٹی جائے وہ مردار ہے"۔پس اگر ان اعضاء میں زندگی ہوتی تو ان سے نفع حاصل کرنا جائز نہ ہوتا۔ لہٰذا جانور کے مرنے سے یہ اجزاء ناپاک نہیں ہوتے۔ اور اسی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت اشارہ فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم، سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک مردار بکری پر گزرے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کی کھال سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟" تو عرض کیا گیا: "یہ تو مردار ہے"، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "بے شک مردار میں صرف اس کا کھانا حرام کیا گیا ہے"۔یہ (حدیث) اس بات پر صریح دلیل ہے کہ وہ چیزیں جو کھانے کے دائرہ میں نہیں آتیں، وہ مرنے سے نجس نہیں ہوتیں۔ (المبسوط للسرخسي، جلد1، صفحہ 203، دار المعرفہ، بیروت)

بدائع میں ہے:

”(وأما) الأجزاء التي لا دم فيها فإن كانت صلبة كالقرن والعظم والسن والحافر، والخف والظلف والشعر والصوف،۔۔۔ فليست بنجسة عند أصحابنا وقال الشافعي: الميتات كلها نجسة.۔۔۔ نجاسة الميتات ليست لأعيانها بل لما فيها من الدماء السائلة والرطوبات النجسة ولم توجد في هذه الأشياء، وعلى هذا ما أبين من الحي من هذه الأجزاء وإن كان المبان جزءا فيه دم كاليد والأذن والأنف ونحوها، فهو نجس بالإجماع، وإن لم يكن فيه دم كالشعر والصوف والظفر ونحوها، فهو على الاختلاف“

 یعنی: وہ اعضاء جن میں خون نہیں ہوتا، تو اگر وہ سخت ہوں جیسے: سینگ، ہڈی، دانت، سُم، کھُر، نعل، بال، اور اون تو ہمارے ائمہ کے نزدیک یہ نجس (ناپاک) نہیں ہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: تمام مردار نجس ہیں۔ (ہماری دلیل یہ ہے کہ) مردار کی نجاست اس کے ذاتی وجود (عین) کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں موجود بہنے والے خون اور ناپاک رطوبتوں کی وجہ سے ہے، اور یہ چیزیں (سینگ، ہڈی وغیرہ) ان ناپاک عناصر سے خالی ہوتی ہیں۔اسی تفصیل کے مطابق زندہ جانور سے جدا کی گئی چیزوں کا حکم ہوگا کہ اگر وہ جزو ایسا ہو جس میں خون ہو، جیسے: ہاتھ، کان، ناک وغیرہ، تو وہ بالاجماع نجس ہیں۔اور اگر وہ جزو ایسا ہو جس میں خون نہیں ہوتا، جیسے: بال، اون، ناخن وغیرہ، تو اس میں وہی اختلاف ہے جو مذکور ہوا۔ (یعنی ہمارے نزدیک پاک اور امام شافعی کے نزدیک ناپاک)۔ (بدائع الصنائع، جلد1، صفحہ 63، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

 جانور کے بال حلال ہونے کے لئے تذکیہ شرعی ضروری ہونے کے متعلق دلائل: 

بال اور ایسے اجزاء جن میں خون نہیں ہوتا ان کے حلال ہونے کے بھی لئے ذبح شرعی ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ حرام ہوتے ہیں اس پر دلائل درج ذیل ہیں:

(1)          فقہائے کرام نے پروں، بالوں کے کھانے  کا حکم اس جانور کی کھال کے حکم کی طرح بیان کیا ہے، اور وہ حلال جانور جسے ابھی تک ذبحِ شرعی نہ کیا گیا ہو تو اس کی کھال کھانا، ناجائز و حرام ہے، لہذا جانور کے بالوں کا بھی یہی حکم ہوگا۔

فاکہۃ البستان میں ہے:

"وأن الشعر والصوف والوبر حكمها كحكم الجلد"

 ترجمہ:  یعنی بال، اون اور وبر کا حکم کھال (چمڑے) کے حکم کی طرح ہے۔(یعنی جیسے مردار ماکول اللحم جانور کی کھال کھانا حلال نہیں ایسے ہی ان بالوں وغیرہ کا حکم ہے۔) (فاکھۃ البستان، صفحہ 173، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اسی میں ہے:

” وذكر في البحر الرائق نقلاً عن السراج الوهاج: إن جلد الميتة بعد الدباغ هل يجوز أكله إذا كان جلد حيوان مأكول اللحم ؟ قال بعضهم: نعم، لأنه طاهر كجلد الشاة المذكاة، وقال بعضهم: لايجوز أكله، وهو الصحيح“

 ترجمہ: اوربحر الرائق میں السراج الوہاج کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ: کیا دباغت کے بعدمردار ماکول اللحم جانور کی کھال کو کھانا، جائز ہے؟ تو بعض علماء نے فرمایا : ہاں جائز ہے، کیونکہ وہ ذبح شدہ بکری کی طرح پاک ہے۔ اور بعض علماء نے فرمایا کہ اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ اور یہی صحیح قول ہے۔ (فاکھۃ البستان، صفحہ 173، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

رد المحتار میں ہے:

"إذا كان جلد حيوان ميت مأكول اللحم لا يجوز أكله، وهو الصحيح {حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ} [المائدة: 3] وهذا الجزء منها"

 ترجمہ:  جب کھال مردار ماکول اللحم جانور کی ہو گی تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے، یہی صحیح قول ہے، کیونکہ قرآن میں ہے  (تم پر حرام کردیا گیا ہے مردار) اور یہ اسی مردار کا ایک جز ہے۔ (رد المحتار، جلد 1، صفحہ 203، دار الفکر، بیروت)

(2)          علمائے کرام نے مردار ماکول اللحم جانور کی ہڈی کو کھانا، ناجائز و حرام قرار دیا ہےاگرچہ ہڈی ایسی چیز ہے جس میں حیات سرایت نہیں کرتی، اسی وجہ سے مردار کی ہڈی پاک ہوتی ہے جبکہ اس پرمردار کی دسومت وغیرہ نہ لگی ہو۔ تو جیسے بے ذبح شرعی مر جانے والے جانور کی ہڈی پاکی کے باجود کھانا حرام ہےتو ایسے ہی بے ذبح شرعی جانور کے جدا ہونے والے بالوں کا کھانا بھی حرام ہے۔

جانوروں کی ہڈیوں کے متعلق فتاوی رضویہ میں ہے: ”ہڈیاں ہر جانور یہاں تک کہ غیر ماکول و نامذبوح کی بھی مطلقاً پاک ہیں جب تک ان پر ناپاک دسومت (چکنائی) نہ ہو سوا خنزیر کے کہ نجس العین ہے۔۔۔مگر حلال وجائز الاکل صرف جانور ماکول اللحم مذکی یعنی مذبوح بذبح شرعی کی ہڈیاں ہیں، حرام جانور اور ایسے ہی جو بے ذکاۃ شرعی مرجائے یا کاٹا جائے بجمیع اجزائہٖ حرام ہے اگرچہ طاہر ہوکہ طہارت مستلزمِ حلت نہیں، جیسے سنکھیا بقدر مضرت اور انسان کا دودھ بعد عمر رضاعت اور مچھلی کے سوا جانورانِ دریائی کا گوشت وغیرذلک کہ سب پاک ہیں اور باوجود پاکی حرام۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحہ 475، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

نیز مذکورہ بالا جزئیے میں امام اہل سنت کا یہ فرمان ”۔۔۔بِجَمِیْعِ اَجْزَائِہٖ حرام ہے۔“ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ جس جانور کو ذبح شرعی نہ کیاگیا ہو اس کی فقط ہڈی ہی نہیں، بلکہ بال، اور پر وغیرہ تمام اجزاء حرام ہوتے ہیں۔

(3)          اور اس بات کی مزید صراحت جد الممتار میں بھی موجود ہے کہ جانوروں کے وہ اعضاء جن کی طہارت کا حکم بغیر ذبحِ شرعی کے دیا جاتا ہے، ان کی بھی حلت یعنی کھانے پینےکےلیے ذبحِ شرعی ضروری ہے۔

 چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ جد الممتار میں لکھتے ہیں:

” ومن هنا يُعلم حكم العظام والعصب وغير ذلك من المحكوم بطهارتها من دون ذكاة، فإن من المأكول فحلال إن ذكي، وإلاّ فحرام وإن كانت طاهرة“

یعنی یہاں سے ہڈیوں اور پٹھوں  وغیرہ وہ اجزاء جن کا بغیرذبحِ شرعی کئے طہارت کا  حکم دیا جاتا ہےان  کا بھی حکم معلوم ہوگیا ہےکہ اگر یہ اجزاء ماکول اللحم جانور کے ہوں تو اگر جانور ذبح شرعی ہوا ہو تویہ حلال ہوں گے، ورنہ یہ حرام ہیں، اگرچہ پاک ہوں۔ (جد الممتار، جلد 2، صفحہ 111، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

تنبیہ: (لینولن والی اشیاء کے استعمال کا حکم)

اوپر مذکورہ تفصیل سے  لینولن کا حکم تو واضح ہوگیا کہ کونسی قسم کی لینو لن حلال ہے اور کونسی قسم کی حرام۔ اور ظاہر ہے کسی پروڈکٹ میں اگر لینولن شامل کی گئی ہو تو جس قسم کی لینولن شامل کی جائے گی، حلال و حرام ہونے کے اعتبار سے اس پروڈکٹ کا بھی وہی حکم ہوجائے گا۔ لہذا

(۱)اگر معلوم ہو کہ اس پروڈکٹ میں حلال قسم کی لینولن کا استعمال کیا گیا ہے تو اس پروڈکٹ کو کھانا پینا جائز ہوگا۔

(۲)اور اگر معلوم ہے کہ اس پروڈکٹ میں حرام قسم کی لینولن شامل کی گئی ہے، تو اس کا کھانا پینا حرام ہوگا۔

(۳) اور اگر مجملاً فقط اتنا معلوم ہے کہ اس پروڈکٹ میں لینولن شامل کی گئی ہے لیکن حلال یا حرام ہونے کے متعلق معلومات نہ ہوں۔ تو اب اس کا حکم جاننے کے لئے یہ بات معلوم ہونا ضروری ہے کہ مارکیٹ میں کس طرح کی لینولن دستیاب ہے اور عموما ً پروڈکٹس میں کس قسم کی لینولن شامل کی جاتی ہے ؟ کیا حلال قسم کی بھی شامل کی جاتی ہے یا نہیں ؟ اس لئے اس کی مکمل معلومات دار الافتاء اہل سنت میں دے کر حکم معلوم کر لیں۔

یہ حکم کھانے پینے والی پروڈکٹس کے متعلق ہے۔ بہر حال لینولن والی خارجی استعمال والی پروڈکٹس کا استعمال مطلقا جائز ہی رہےگا، کیونکہ لینولن ناپاک نہیں ہوتی۔(ہاں اگر یقینی طور پر یہ ثابت ہو کہ اس پروڈکٹ میں خنزیر کے بالوں سے بنی لینولن شامل کی گئی توپھر ناپاکی کا حکم ہوگا۔)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : محمد ساجد عطاری

مصدق : مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL-0221

تاریخ اجراء: 24 رمضان المبارک  1446 ھ/25 مارچ  2025 ء