
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ میں حجام ہوں، لوگ بالوں کی کٹنگ کے ساتھ مجھ سے شیو بھی بنواتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں شیو بنا سکتا ہوں ؟ نیز داڑھی کاٹنے اور شیو بنانے کی اجرت کا کیا حکم ہے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایک مٹھی داڑھی رکھنا شرعاًواجب ہے، اسے کٹوا کر ایک مٹھی سے کم کرنا یا بالکل منڈوا دینا، ناجائز و حرام ہے، یونہی کسی دوسرے کی داڑھی مونڈنا بھی گناہ ہے کہ اس میں گناہ پر تعاون ہے اور گناہ پر تعاون کرنا بھی گناہ ہے ۔
جہاں تک داڑھی مونڈنے کی اجرت کا معاملہ ہے تو چونکہ یہ ایک ناجائز کام ہے اور ناجائز کام پر اجارہ کرنا بھی ناجائز ہے، لہٰذا ایسا گناہ کا کام کرنا، اس پر اجارہ کرنا اور اس کی اجرت لینا سب ناجائز و گنا ہ ہے اور اگر اجرت لے لی ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ جن جن سے لی، ان کو واپس کرنا واجب ہے اور اگر معلوم نہ ہو کہ کس کس سے لی، تو اجرت کے اِن پیسوں کو صدقہ کرنا ہو گا کہ یہ خبیث مال ہے اور خبیث مال کا یہی حکم ہوتا ہے۔
داڑھی کے تاکیدی و و اجبی حکم کے متعلق صحیح بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی ودیگرکتب احادیث میں ہے،
واللفظ للبخاری: ”عن ابن عمر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خالفوا المشرکین وفروا اللحی وأحفوا الشوارب وکان ابن عمر إذا حج أو اعتمر قبض علی لحیتہ فما فضل أخذہ“
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤاورمونچھیں پست کرو۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ کرتے، تو اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی، اسے کاٹ دیتے تھے۔ (صحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 160، مطبوعہ دار طوق النجاۃ )
داڑھی کٹوانے کے متعلق غنیہ، بحر الرائق، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، در مختار اور درر شرح غرر وغیرہا کتبِ فقہ میں ہے،
واللفظ للآخر: ”و اما الاخذ من اللحیۃ و ھی دون القبضۃ کما یفعلہ بعض المغاربۃ و مخنثۃ الرجال فلم یبحہ احد و اخذ کلھا فعل مجوس الاعاجم والیھود و الھنود و بعض اجناس الافرنج“
ترجمہ: اور بہر حال ایک مشت سے داڑھی کم کرنا، جیسے بعض مغربی اور زنانے قسم کے لوگ کرتے ہیں، اس کو کسی نے جائز قرار نہیں دیا اور ساری داڑھی منڈوا لینا، عجمی مجوسیوں، یہودیوں، ہندؤوں اور بعض افرنگیوں (انگریزوں) کا فعل ہے۔ (دررشرح غرر، کتاب الصیام، جلد1، صفحہ208، مطبوعہ داراحیاءالکتب العربیہ، بیروت)
شیخِ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلوی حنفی بخاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات: 1052ھ) لکھتےہیں: ”حلق کردن لحیہ حرام است وگزا شتن آں بقدر قبضۃ واجب“ ترجمہ: داڑھی منڈانا حرام ہے اور ایک مٹھی کی مقدار چھوڑنا واجب ہے۔ (اشعۃاللمعات، جلد 1، صفحہ 212، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر)
گناہ پرمدد کرنے کی ممانعت کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتاہے:
(وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان)
ترجمہ کنز العرفان: اورگناہ اور زیادتی پرباہم مددنہ کرو۔ (القرآن الکریم، پارہ 6، سورۃ المائدہ، آیت 2)
محیط برہانی میں ہے:
”الاعانۃ علی المعاصی و الفجور و الحث علیھا من جملۃ الکبائر“
ترجمہ: گناہوں اور فسق و فجور کے کاموں پر مدد کرنا اور اس پر ابھارنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (المحیط البرھانی، جلد 8، صفحہ 312، مطبوعہ بيروت)
ناجائز کام پر اجارہ بھی ناجائز ہے، چنانچہ مبسوطِ سرخسی میں ہے:
”و لا تجوز الاجارۃ علیٰ شیئ من الغناء و النوح و المزامیر و الطبل و شیئ من اللھو لأنہ معصیۃ و الاستئجار علی المعاصی باطل، فان بعقد الاجارۃ یستحق تسلیم المعقود علیہ شرعاً ولا یجوز أن یستحق علی المرأ فعل بہ یکون عاصیاً شرعاً“
ترجمہ: اور گانے باجے، نوحہ، مزامیر، طبل بجانے اور کسی بھی قسم کے لہو و لعب کے کام پر اجارہ جائز نہیں، کیونکہ یہ گناہ ہے اور گناہوں پر اجارہ کرنا باطل ہے، کیونکہ عقد اجارہ کے سبب معقود علیہ ( جس چیز پر اجارہ کیاگیا ہے ) کو سپرد کرنے کا شرعاً استحقاق ثابت ہوجاتا ہے اور یہ جائز نہیں کہ کسی شخص پر ایسے فعل کا استحقاق ثابت ہو جس سے وہ شرعاً گناہ گار ہو جائے گا ۔ (المبسوط للسرخسی، جلد 16، صفحہ 38، مطبوعہ بیروت)
ناجائز کام پر حاصل ہونے والی اجرت کے متعلق مجمع الانہر میں ہے:
”لا یجوز أخذ الأجرۃ علی المعاصی کالغناء و النوح و الملاھی۔ ۔۔ و ان اعطاہ الأجر و قبضہ لا یحل لہ و یجب علیہ ردہ علی صاحبہ“
ترجمہ: گناہ کے کاموں پر اجرت لینا جائز نہیں، جیسے گانے باجے، نوحہ اور تمام لہو و لعب کے کام اور اگر اس نے اجرت دی اور اس نے قبضہ کرلیا، تو وہ اجرت اس کے لیے حلال نہیں اور اس پر واجب ہے کہ وہ مالک کو واپس کردے۔ (مجمع الانھر، جلد 03، صفحہ 533، مطبوعہ کوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء)لکھتے ہیں: ”حرام فعل کی اُجرت میں جو کچھ لیا جائے، وہ بھی حرام کہ اجارہ نہ معاصی پر جائز ہے، نہ اطاعت پر۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 187، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن)
داڑھی مونڈنے کی اجرت کے متعلق مفتی محمد وقار الدین رضوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں: ”داڑھی مونڈنا حرام ہے، یہ کام کرنا بھی حرام ہے، کسی سے کروانا بھی حرام اور اس کی اجرت بھی حرام ہے۔” ( وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 427، مطبوعہ بزم وقار الدین، کراچی )
اجرت دینے والوں کا علم نہ ہو، تو اس کے حکم کے متعلق بہارِ شریعت میں ہے : ”ان صورتوں میں اُجرت لینا بھی حرام ہے اور لے لی ہو، تو واپس کرے اور معلوم نہ رہا کہ کس سے اُجرت لی تھی، تو اُسے صدقہ کر دے کہ خبیث مال کا یہی حکم ہے۔” (بھار شریعت، جلد 3، صفحہ 144، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9489
تاریخ اجراء : 05 ربیع الاول 1447 / 30 اگست 2025 ء