گوشت، کلیجی، تلی اور دل کے خون کا شرعی حکم

گوشت، جگر، تلی اور دل کے خون کا حکم

دار الافتاء اھلسنت(دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:

حلال جانور کے سب اجزاء حلال ہیں مگر بعض کہ حرام یا ممنوع یا مکروہ ہیں ۔۔۔۔۔ (10)جگر (یعنی کلیجی)کا خون  (11)تلی کا خون  (12)گوشت کا خون کہ بعدِ ذبح گوشت میں سے نکلتا ہے  (13)دل کا خون ۔۔ الخ“   (فتاویٰ رضویہ ج۲۰ ص ۲۴۰ ، ۲۴۱)

یہاں چار طرح کے خون کا تذکرہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مکروہ تحریمی ہیں یا  تنزیہی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

جانور کو ذبح کرنے پر رگوں سے جو  دمِ مسفوح (بہنےوالا خون ) نکلتا ہےوہ قطعا یقینا  ناپاک اور حرام ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ لیکن ذبح سے دمِ مسفوح نکل جانے کے بعد  بھی جانور کے جسم  میں  چار طرح کا خون   رہتا ہے:  (1)وہ خون  جوگوشت میں رہ جاتاہےاور بعد میں گوشت سے نکلتا ہے۔ (2) جگر ( کلیجی)کا خون ۔ (3)تلی کا خون   (4)اور دل  سے نکلنےوالا خون۔

  ان چار طرح کے خونوں  کے متعلق  درج ذیل دو سوال قائم ہوتے ہیں :

(1)       کیا   یہ   خون بھی دمِ مسفوح کی طرح ناپاک ہیں یا ان کا حکم جدا ہے ؟

(2)       کیا  ا ن  کو کھانا جائز ہے یا نہیں ؟

جہاں تک پاکی یا ناپاکی کا سوال ہے توبیان کردہ چار خونوں میں سے پہلے تین ( یعنی گوشت ، جگر اور تلی) خونوں کے متعلق تو فقہاء کرام نے بالکل واضح انداز سے یہ بیان کر دیا ہے  کہ  کثیر فقہاء کی  رائے اور  راجح  قول کے مطابق یہ پاک ہیں ۔(متعلقہ عبارات آگے فتوے میں بیان ہوں گی)جبکہ چوتھی قسم یعنی دل سے نکلنے والے خون   کے متعلق  فقہاء کرام کے دو مختلف اقوال مروی ہوئے  ہیں ۔بعض علماء نے  اسے پاک قرار دیا اور بعض نے ناپاک قرار دیا۔ لیکن ان دو میں سے کونسا قول راجح  اور زیادہ درست ہے ؟ اس کے متعلق فقہاء نے مزید  کلام نہیں کیا۔

اور دوسری طرف ان خونوں کے حلال یا حرام ہونے سے متعلق  دیکھا جائے تو دل کے خون کے متعلق توامامِ اہل سنت امام احمد رضان خان رحمہ اللہ سے پہلے کے فقہاء کا کلام ہمیں نہیں ملتا ۔ اور بقیہ تین طرح کے خون کے متعلق فقہاء کرام نے گفتگو کی ہے لیکن   یہاں بھی علماء کی عبارات میں شدید قسم کا اختلاف  دکھائی دیتا ہے۔ بہت سی عبارات ایسی ہیں جن  میں انتہائی واضح انداز سے یہ  بیان کیا گیا  کہ یہ حلال ہے، مکروہ نہیں ۔  جبکہ دیگر بعض عبارات ایسی بھی ہیں  کہ ان تین طرح کے خونوں کو جانور کے ممنوعہ  اجزاء میں سے شمار کیا اور مکروہ قرار دیا۔

پہلے تین قسم کے خون جن کا پاک ہونااگرچہ واضح ہو چکا لیکن پاک ثابت ہونے سے  ان کا  حلال ہونا ثابت  نہیں  ہوتا کیونکہ بہت سی پاک چیزیں بھی حرام ہوسکتی ہیں جیسا کہ مچھلی کے علاوہ سمندری جانور وغیرہ۔ اور چوتھی قسم کے خون کے متعلق تو ناپاک ہونے کا بھی قول موجود ہے۔اس سارے پسِ منظر کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو حلال ، حرام یا مکروہ  ہونے کے حوالے سے ان خونوں کا حکم واضح کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گوشت  یا دیگر مذکورہ اجزاء کو دھوئے بغیر  یا ان میں سے اچھی طرح خون نکالے بغیر پکا لیا جاتا ہے۔ یہاں یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس طرح پکا ہوا گوشت حلال رہے گایا نہیں ؟ اوراس میں کسی قسم کی  کراہت کا حکم آئے گا یا نہیں ؟ درج ذیل تحریر میں  اسی سوال کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق پیش کی گئی ہے ۔

ذیل میں اس  تحقیق کے نتیجے میں  سامنے آنے والے جواب کا خلاصہ ہے  اور اس کے بعد اس تحقیق کی تفصیلات مذکور ہوں گی ۔

خلاصۂِ جواب

جانور کو ذبح کرنے پر رگوں سے جو  دمِ مسفوح (بہنےوالا خون ) نکلتا ہےوہ قطعا یقینا حرام ہے۔ اور اس کے بعد (1)جو خون گوشت میں رہ جاتاہےاور بعد میں گوشت سے نکلتا ہے  ، اور(2) جگر ( کلیجی)کا خون اور (3)تلی کا خون    (4)اور دل  سے نکلنےوالا خون   یہ سب بھی ناجائز  ہیں۔

لیکن ان کے ناجائز ہونے کامطلب یہ ہے کہ  گوشت ، جگر ،  تلی اور دل  سے  جب یہ خون جدا ہو  اور ان کو مستقل حیثیت سے دیکھا جائے تو اب  ان  کا استعمال ناجائز و گناہ ہے ۔ اوراگر گوشت ، جگر ،  تلی اور دل  سے خون جدا نہیں  ہوا بلکہ ان کے ساتھ ہی لگا ہوا ہے اور صاف کئے  و دھوئے بغیر اسی طرح گوشت و دیگر اشیاء کو  پکا لیا گیا  تو اب یہ  گوشت  و دیگر اشیاء کو نہ تو ناپاک قرار دیا جائےگا اور نہ ہی ممنوع و ناجائز قرار دیا جائے گا ۔ گوشت ،جگر   وغیرہ  جو یقینا ذبح کے بعد حلال ہیں ان کی  حلت کے ساتھ ضمنا ً و تبعاً ان کے ساتھ لگے ہوئے خون کی حلت بھی ثابت ہوجائے گی۔ کیونکہ فقہ کا مشہور و مسلمہ اصول ہے کہ

” کم من شیئ یثبت ضمنا ولایثبت قصدا 

 یعنی کبھی ایک چیز ، دوسری کے ضمن میں اوراس کی تبع میں ثابت ہو جاتی ہے،لیکن قصدا وہ ثابت نہیں ہوتی۔  اور فقہاء کرام فرماتے ہیں  جو چیز کسی کی تبع میں آ رہی ہے اس میں بہت سی ایسی  رعایتیں مل جاتی ہیں جو مستقل  حیثیت رکھنےوالی چیز میں  نہیں دی جاتیں۔البتہ جہاں تک ممکن ہو گوشت اور ان اشیاء  کو دھو کر خون سے صاف کر کے پھر پکانا اور استعمال کرنا چاہیے۔

مسئلے کی تفصیل:

مسئلے کی تفصیل کچھ یوں ہے  کہ حدیث پاک میں حلال جانور کے سات اجزاء(پتہ،مثانہ ،  غدود،علامت مادہ ، علامت نر، کپورے اور مسفوح خون) کی ممانعت و کراہت مذکور ہے۔  لیکن  کئی علماء و فقہاء کرام نے اس پر مزید اجزاء کی ممانعت کا اضافہ فرمایا۔ ان میں  علامہ قہستانی اور علامہ طحطاوی نے تین طرح کے خون کی کراہت کا بھی قول کیا: (1)  جگر(کلیجی) کا خون  (2)طحال (تلی) کا خون (3) اور گوشت کا وہ خون جو ذبح کے بعد گوشت میں  رہ جاتا ہے۔

دم مسفوح کے علاوہ چھے اجزاء جن کا حدیث میں ذکر ہوا ان کی کراہت ، کراہت تحریمی ہے۔ اس پر واضح جزئیات و عبارات موجود ہیں۔(تفصیل کے لئے دیکھئے فتاوی رضویہ، 20/235) لیکن اس کے بعد جن چار خونوں  کی کراہت کا تذکرہ ملتا ہے ان کی کراہت تحریمی ہے یا تنزیہی ، اس حوالے سے ان کتب میں خاص وضاحت نہیں ہے ۔ان خونوں کے حوالے سے اگر ہم  کتبِ فقہ کی عبارات کا جائزہ لیں   تو ہمیں دو طرح کی عبارات ملتی ہیں۔ بعض عبارات   ودلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان خونوں کا حکم جائز  و حلال ہونے کا ہے اور  بعض عبارات  سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا حکم ناجائز  و مکروہ تحریمی والا ہے۔ چنانچہ دونوں طرح کی عبارات ملاحظہ فرمائیں ۔

  ذیل میں ہم گوشت کے خون  کے متعلق عبارات الگ سے بیان کریں گے اور  تلی و جگر کے خون کی عبارات الگ بیان کریں گے۔ اور ان کی بحث کے بعد پھر دل کے خون کے متعلق  عبارات و گفتگو کریں گے۔

جواز و حلت ظاہر کرنے والی عبارات:

دم اللحم كے متعلق جزئیات:

ذبح کے بعد رگوں یا گوشت میں بچ جانے والا خون عمومی طور پر غیر مسفوح ہوتا ہے۔ اور ایسا خون شرعاً  حرام نہیں۔  کیونکہ قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے دم مسفوح کو حرام قرار دیا۔ لہٰذاگوشت میں  بقیہ رہ جانے والا دمِ غیر مسفوح حلال ہے ۔ حضرت عائشہ رضی رضی اللہ تعالی عنہاسے مروی ہوا کہ ”اگر ہنڈیا میں گوشت پکایا گیا اور  گوشت کی وجہ سے پانی میں زردی یا سرخی  پیدا ہوگئی تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔“ بلکہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں  کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گوشت پکاتے تھے اور برتن میں خون کی زردی اوپر آجاتی تھی لیکن  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کھاتے اور اس سے منع نہ فرماتے ۔

ہمارے ائمہ رحمھم اللہ سے بھی یہی مروی ہے کہ ذبح کے بعد  گوشت وغیرہ میں جو خون  لگا رہ جاتا ہے اور مسفوح نہیں ہوتا وہ حلال ہے۔ اور یہی بات معتبر کتب میں مذکور ہے ۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے

{قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًااَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہ رِجْسٌ}

 ترجمہ کنزالایمان : تم فرماؤمیں نہیں پاتا اس میں جو میری طرف وحی ہوئی کسی کھانے والے پر کوئی کھانا حرام مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت ،وہ نجاست ہے۔ (پارہ نمبر8سورئہ انعام آیت نمبر145)

 امام ابوبکرجصاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں

 ’’ عن قتادۃ فی قولہ( أو دما مسفوحا )قال حرم من الدم ما کان مسفوحا  وأما اللحم یخالطہ الدم فلا بأس بہ وروی القاسم بن محمد عن عائشۃ  أنہا سئلت عن الدم یکون فی اللحم والمذبح قالت إنما نہی اللہ عن الدم المسفوح ولا خلاف بین الفقہاء فی جواز أکل اللحم مع بقاء أجزاء الدم فی العروق لأنہ غیر مسفوح‘‘

ترجمہ:حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اللہ عزوجل کا فرمان "بہتاخون"،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بہتاہواخون حرام ہے اورجس گوشت میں خون مل جاتاہے اس میں کوئی حرج نہیں اورقاسم بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت کیاکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے گوشت اورذبح شدہ جانورکے خون کے متعلق سوال کیاگیاتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ارشادفرمایاکہ اللہ عزوجل نے بہتے خون سے منع فرمایاہے اورفقہاکاایساگوشت کھانے میں کوئی اختلاف نہیں جس کی رگوں میں خون ہوکیونکہ یہ بہتاہواخون نہیں۔ (احکام القرآن باب تحریم الدما جلد نمبر3صفحہ نمبر33قدیمی کتب خانہ کراچی)

امام نووی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :

”مما تعم به البلوى الدم الباقي على اللحم وعظامه وقل من تعرض له من أصحابنا فقد ذكره أبو إسحق الثعلبي المفسر من أصحابنا ونقل عن جماعة كثيرة من التابعين أنه لا بأس به ودليله المشقة في الاحتراز منه وصرح أحمد وأصحابه بأن ما يبقى من الدم في اللحم معفو عنه ولو غلبت حمرة الدم في القدر لعسر الاحتراز منه وحكوه عن عائشة وعكرمة والثوري وابن عيينة وأبى يوسف واحمد واسحق وغيرهم واحتجت عائشة والمذكورون بقوله تعالى (إلا أن يكون ميتة أو دما مسفوحا) قالوا فلم ينه عن كل دم بل عن المسفوح خاصة وهو السائل“

یعنی ایک ایسا عمومی مسئلہ جس میں لوگوں کا عام ابتلاء ہے وہ  اس خون کا ہے جو(ذبح کے بعد جانور کے )   گوشت اور اس کی ہڈیوں پر باقی رہ جاتا ہے۔ ہمارے فقہاء میں سے بہت کم افراد نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ اس مسئلے کو ہمارے اصحاب میں سے مفسر ابو اسحاق الثعلبی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، اور انہوں نے بہت سے تابعین سے نقل کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اس سے بچنا دشوار ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب نے صراحت کی ہے کہ گوشت میں جو خون باقی رہ جاتا ہے، وہ معاف ہے، چاہے دیگ میں خون کی سرخی غالب آجائے، کیونکہ اس سے بچنا مشکل ہے۔ اور علماء نے یہ  بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، عکرمہ، امام ثوری، امام ابن عیینہ، امام ابو یوسف، امام احمد، امام اسحاق اور دیگر  سے نقل کی ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور مذکورہ فقہاء نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا: "مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو" انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے خون سے منع نہیں کیا، بلکہ خاص طور پر بہنے والے (سائل) خون سے منع کیا ہے۔(المجموع شرح المهذب، جلد2، صفحہ 557، دار الفکر)

علامہ ابن امیر الحاج حلبی  شرح منیۃ المصلی میں لکھتے ہیں :

وأسند عكرمة قال: لولا هذه الآية "أو دماً مسفوحاً"   لاتبع المسلمون من العروق ما اتبع اليهود. وفي فتاوی الولوالجي وغیرها: لما روي عن عائشة رضي الله عنها: سئلت عن اللحم یطبخ فی القدر فیری فی القدر صفرۃ الدم؟ فقالت: لابأس بذلك انتهى. . . . . . . وفي شرح المنهاج للدمیري: ویدل له من السنة قول عائشة: كنا نطبخ على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  والبرمة تعلوها  الصفرة من الدم، فيأكل ولا ينكره، انتهى. وهذا یفید أن مستند فتواها المذكورة تقرير النبي صلى الله عليه وسلم ذلك بعد العلم به، وهو بمنزلة التشريع الفعلي، والقولي منه كما عرف فيه“

 حضرت عکرمہ نے کہا: اگر یہ آیت

"أو دماً مسفوحاً"

 نہ ہوتی تو مسلمان رگوں سے وہ چیز نکالنے میں لگے رہتے  جو یہود نکالتےتھے ۔۔ اور فتاویٰ الولوالجی وغیرہ میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ان سے پوچھا گیا کہ گوشت کو دیگچی میں پکایا جاتا ہے اور دیگچی میں خون کی  زردی نظر آتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں، انتہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور شرح المنہاج للدمیری میں ہے: اس کے لیے سنت سے دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول ہے: ”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گوشت پکاتے تھے اور برتن میں خون کی زردی اوپر آتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کھاتے اور ناپسند نہیں فرماتے تھے۔“ انتہی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مذکورہ فتویٰ کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پر ہے کہ  آپ نے جاننے کے  باوجود اسے برقراررکھا۔ اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف  عملی و قولی  تشریع کی مانند ہے جیسا کہ اس بارے میں یہ  معروف ہے۔(حلبہ ، جلد1، صفحہ553، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

 فتاوی تاتار خانیہ میں ہے

’’و لو طبخ اللحم فی القدر و یری صفرۃ او حمرۃ فلا بأس بہ ورد الاثر فی عین ھذہ الصورۃ عن عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنھا‘‘

 ترجمہ: اور اگر ہنڈیا میں گوشت پکایا گیا اور اس میں زردی یا سرخی دکھائی دی تو اس میں کوئی حرج نہیں ، بعینہ اسی صورت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اثر وارد ہوا ہے۔(فتاوی تاتارخانیہ، جلد1، صفحہ432، مکتبہ فاروقیہ، کوئٹہ)

ہمارے ائمہ رحمھم اللہ سے بھی یہی مروی ہے کہ ذبح کے بعد  گوشت وغیرہ میں جو خون  لگا رہ جاتا ہے اور مسفوح نہیں ہوتا وہ حلال ہے۔ چنانچہ فتاوی تاتارخانیہ میں ہے

’’و عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ انہ انما یحرم الدم المسفوح وھو السائل فاما ما یکون فی اللحم ملتزقا بہ فلا باس بہ و عن ابی یوسف رحمہ اللہ بروایۃ ابن سماعۃ انما یحرم الدم المسفوح الذی یسکن العروق و اذا فجر سال وفی الحجۃ : وقال محمد بن الحسن : ما لیس بسائل و لا متقاطر فلیس بمکروہ‘‘

ترجمہ: امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ فقط  دم مسفوح حرام ہے اور دم مسفوح وہ ہے جو بہنے والا ہو۔ بہر حال جو خون گوشت کے ساتھ جُڑا  رہتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ۔ امام ابو یوسف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بروایت ابن سماعہ مروی ہے دم مسفوح وہ ہے  جو رگوں میں رہتا ہے اور رگ  کاٹنے سے بہہ جاتا ہے ، وہ حرام ہے۔ اور حجۃ میں ہے : امام محمد بن الحسن نے فرمایا: جو بہنے والا یا قطرہ بن کر ٹپکنے والا نہیں وہ مکروہ نہیں۔(فتاوی تاتارخانیہ، جلد1، صفحہ432-3، مکتبہ فاروقیہ)

فاكهة البستان میں  علامہ ہاشم ٹھٹھوی(وفات: 1174ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

” و روي عن أبي حنیفۃ وأبي یوسف نصاً أن المحرم هو الدم المسفوح، والملتزق باللحم لا من الدم السائل  لا باس به کذا فی تحفۃ الفقہ ومتانۃ الروایات“

 (فاكهة البستان، ص171، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

معتبر کتب فقہ ، متون ،   شروح  و فتاوی میں بھی یہ بات  مذکور ہے کہ ذبح کے بعد گوشت میں باقی رہ جانے والا خون حلال ہے۔ چنانچہ محیط رضوی  اور خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

 واللفظ للمحیط:” وذکر الکرخی فی مختصرہ  وما بقی فی العروق واللحم من الدم طاھر لانہ لیس بمسفوح ولھذا حل تناولہ “

اور کرخی نے اپنی مختصر میں ذکر کیا ہے کہ رگوں اور گوشت میں باقی رہ جانے والا خون پاک ہے کیونکہ وہ مسفوح (بہنے والا) نہیں ہے، اسی وجہ سے اس کا کھانا حلال ہے۔(محیط رضوی،جلد 1، صفحہ138، دار الکتب  ،پشاور)  (فتاوی تاتارخانیہ بحوالہ خلاصۃ الفتاوی، جلد1، صفحہ432-3 مکتبہ فاروقیہ، کوئٹہ)

ملِکُ العلماء علامہ کاسانی رحمہ اللہ  لکھتے ہیں

 ’’والدم الذی یبقی فی العروق واللحم بعد الذبح طاہر؛ لأنہ لیس بمسفوح ولہذا حل تناولہ مع اللحم وروی عن أبی یوسف أنہ معفو فی الأکل غیر معفو فی الثیاب لتعذر الاحتراز عنہ فی الأکل وإمکانہ فی الثوب‘‘

ترجمہ: وہ خون جو رگوں اور گوشت میں باقی رہ جاتا ہے پاک ہوتا ہے کیونکہ وہ مسفوح نہیں اسی وجہ سے گوشت کے ساتھ اس کا کھانا حلال ہے اور امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ کھانے میں معافی ہے اور کپڑوں پہ لگ جائے تو معافی نہیں کیونکہ کھانے میں اسے سے بچنا ممکن نہیں اور کپڑوں میں یہ بات ممکن ہے ۔ (بدائع الصنائع، ج1، صفحہ61، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

امام قدور ی التجرید میں لکھتے ہیں :

”ما أبيح أكله من أجزاء الدم محكوم بطهارته، أصله: ما في اللحم بعد ذكاته. “

 یعنی جن اجزاءِ خون کو کھانے کی اجازت دی گئی ہے، ان کے پاک ہونے کا حکم ہے۔ اس کی اصل وہ خون ہے جو ذبح کے بعد گوشت کے اندر باقی رہ جاتا ہے۔(التجريد للقدوری، جلد2، صفحہ 741، دار السلام - القاهرة)

فاکهة  البستان (ص171)میں  بحوالہ امام قدوری  اور فتاوی غیاثیہ میں ہے

واللفظ للثانی: ’’ما بقی من الدم فی العروق و اللحم بعد الذبح طاھر و یؤکل مع اللحم وبہ اخذوا ‘‘

ترجمہ: جو خون ذبح کے بعد رگوں میں یا گوشت میں باقی رہ جاتا ہے وہ پاک ہے اور اسے گوشت کے ساتھ کھایا جائے گا ، اسی کو علماء نے لیا ہے ۔ (فتاوی غیاثیہ ، جلد1، صفحہ10مخطوط)

غنیہ شرح منیہ  میں ہے

’’و ما بقی فی اللحم و العروق من الدم الغیر السائل فلیس بنجس و الاصل ان النجس من الدم ماکان مسفوحا لقولہ تعالی او دما مسفوحا فما لیس بمسفوح لا یکون حراما فلا یکون نجسا لان الاصل فی الاشیاء الحل و الطھارۃ الا ماحکم الشرع بحرمتہ او بنجاستہ‘‘

ترجمہ: نہ بہنے والا وہ خون جو گوشت اور رگوں میں باقی رہ جاتا ہے وہ نجس نہیں ۔ اوراصل یہ ہے کہ نجس وہ خون ہے جو مسفوح ہو اللہ تعالی کے فرمان"  او دما مسفوحا "کی وجہ سے لہٰذا جو مسفوح نہیں وہ حرام بھی نہیں لہٰذا وہ نجس بھی نہیں ہوگا کیونکہ اشیاء میں اصل حلت اور طہارت ہے الا یہ کہ شریعت اس کے حرام یا نجس ہونے کا حکم دے۔(غنیۃ المستملی، جلد1، صفحہ171-2، مکتبہ نعمانیہ، کوئٹہ)

طحطاوی علی الدر، طوالع الانوار، فاكهة البستان اور  رد المحتار میں ہے :

واللفظ لرد المحتار: ’’أما الباقی فی العروق بعد الذبح فإنہ لا یکرہ‘‘

ترجمہ: وہ خون جو ذبح کے بعد رگوں میں باقی رہ جاتا ہے وہ مکروہ نہیں۔(ردالمحتار، جلد6، صفحہ749، دارالفکر، بیروت)

 فتاوی رضویہ جلددوم میں جہاں امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے گوشت کے خون کے پاک ہونے کا بیان کیا ہے ۔وہاں محشی (مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان رحمہ اللہ )نے  اس پر حاشیہ میں لکھا: ’’مسئلہ: گوشت کا خون کہ رگوں کا خون نکل جانے کے بعد خود گوشت میں باقی رہتا ہے پاک ہے اور حلال جانور ہو تو حلال بھی ہے ۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد4، صفحہ690، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

دم الکبد والطحال کے متعلق جزئیات:

بنایہ شرح ہدایہ میں بحوالہ " الغایة" اور  تحفۃ الفقہاء میں ہے  :

 واللفظ للثانی’’ أبو حنيفة فسر هذا وقال الدم حرام للنص القاطع ... وإنه أراد به الدم المسفوح أما دم الکبد والطحال ودم اللحم فلیس بحرام“

 یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ خون نص قاطع کی رو سے حرام ہے ... اور اس سے مراد بہنے والا خون (دم مسفوح) ہے۔ جہاں تک جگر، تلی اور گوشت کے خون کا تعلق ہے، تو وہ حرام نہیں ہے۔(تحفۃ الفقہاء،کتاب الذبائح، جلد3، صفحہ69، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

فاكهة  البستان میں ہے:

” وأما دم الكبد والطحال واللحم فليس بنجس ولا حرام. كذا في البزازية وخزانة الفتاوى. “

 یعنی جہاں تک جگر، تلی اور گوشت کے خون کا تعلق ہے، تو وہ نہ ناپاک ہے اور نہ ہی حرام۔ ایسا ہی بزازیہ اور خزانۃ الفتاوی میں مذکور ہے۔(فاكهة البستان، ص170، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

طوالع الانوار میں ہے

”(و)دم (کبد و طحال) وھو ما یکون متمکنا فیھما لا من غیرھما فان الذی فیھما  لیس بمسفوح و لا نجس بل احل لنا  بدلیل "واحل لنا دمان الکبد والطحال" “

 یعنی   پاک ہے جگر اور تلی کا خون، جو ان ہی کے اندر ہوتا ہے نہ  وہ کہ ان کے علاوہ باہر سے لگا ہو، کیونکہ ان میں موجود خون مسفوح (بہنے والا) اور ناپاک نہیں  ہوتاہے بلکہ ہمارے لیے حلال ہے، اس کی دلیل  یہ  حدیث ہے : "اور ہمارے لیے دو خون حلال کیے گئے ہیں: جگر اور تلی" (طوالع الانوار، کتاب الطھارۃ،  مخطوط)

اسی میں ہے:

”ودم الكبد  والطحال واللحم لا يكره “

اور جگر، تلی اور گوشت کا خون مکروہ نہیں ہے۔(طوالع الانور، كتاب الكراهية،  مخطوط)

ان جزئيات سے بخوبی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ذبح کے بعد  گوشت  کے اندر رہ جانے والا  خون،اور جگر و تلی کا خون ،یہ سب نہ صرف پاک ہیں بلکہ حلال بھی ہیں ۔

لیکن دوسری طرف کچھ جزئیات ایسے بھی ہیں جن میں ان خونوں کو بھی مکروہ  قرار دیا گیا ہے چنانچہ وہ جزئیات درج ذیل ہیں :

ممانعت و کراہت  کے جزئیات:

·     النتف فی الفتاوی میں ہے

 ’’یکرہ من الشاۃ المذبوحۃ سبعۃ اشیاء الذکر والحیاء والغدۃ والمرارۃ والمثانۃ والانثیان والدم الذی یخرج من اللحم او الکبد او الطحال واما الدم المسفوح فانہ حرام وهو من المحرمات الاصلیۃ‘‘

ترجمہ: مذبوحہ بکری میں سے سات اشیاء مکروہ ہیں :ذَکَر، شرمگاہ، غدود ، پتہ، مثانہ، خصیے اور وہ خون جو گوشت، جگر یا تلی سے نکلتا ہے ۔ بہر حال دمِ مسفوح تووہ محرماتِ اصلیہ میں ہے ۔(النتف، جلد1، صفحہ233، مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

·     امام اہل سنت امام احمد رضا خان  رحمہ اللہ  تعالی نے اپنے تفصیلی فتوے میں  ان تین طرح کے خون کی کراہت کو بیان کیا ہے اور اس پر جامع الرموز و طحطاوی کی عبارات ذکر کی ہیں چنانچہ آپ لکھتے ہیں :

” سات چیزیں تو حدیثوں میں شمار کی گئیں: (۱) مرارہ یعنی پتہ (۲) مثانہ یعنی پھکنا (۳) حیاء یعنی فرج (۴) ذکر (۵) انثیین (۶) غدہ (۷) دم یعنی خون مسفوح۔۔۔۔۔۔یہ تو سات  بہت کتب مذہب، متون وشروح وفتاوٰی میں مصرح ۔۔۔۔۔ اور فاضلین اخیرین (علامہ شمس الدین محمد قہستانی شارح نقایہ وعلامہ محمد سیدی احمد مصری محشی درمختار)وغیرہما نے تین اور بڑھائیں (۱۰) خون جگر (۱۱) خون طحال (۱۲) خون گوشت یعنی دم مسفوح نکل جانے کے بعد جو خون گوشت میں رہ جاتاہے

۔۔۔۔۔جامع الرموز میں اس کے بعد ہے:

 وکذا الدم الذی یخرج من اللحم والکبد والطحال

 ذبائح الطحطاوی میں ہے:

الذکر والانثیان والمثانۃ والعصبان اللذان فی العنق والمرارۃ تحل مع الکراهۃ، وکذا  الدم  الذی یخرج من اللحم والکبد والطحال دون الدم المسفوح، وھل الکراهۃ تحریمیۃ اوتنزیهیۃ قولان“

(فتاوی رضویہ،جلد 20، صفحہ236 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

·     علامہ ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب فاكهة البستان میں شیح الاسلام ہروی  کی فارسی کتاب " صیدیۃ"  کے  حوالے سے ان کی کراہت کا قول نقل کیا ہے چنانچہ  فاکھة البستان میں ہے: ” وشیخ الاسلام در صیدیہ فارسیہ خود آورده که در گوسفند مثلاً هفت چیز مکروه هست، و در معنی کراہیت آنها خلاف کرده اند، بعضی گفته اند حرام است، و بعضی گفتند معنی کراہیت آنها ترک [است، نه حرام] و آن هفت چیز این است: ذکر و خصیه و فرج و غدد و مثانه و زهره و خونی که از جگر یا گوشت یا سپرز بیرون آید، اما خونی که ریخته می شود و روان است حرام است باتفاق. انتهی کلامه۔ “ترجمہ: اور شیخ الاسلام نے اپنی فارسی تصنیف "صیدیہ" میں ذکر کیا ہے کہ گوسفند (بھیڑ) میں سات چیزیں مکروہ ہیں۔ ان کی کراہت کے معنی میں اختلاف ہے، بعض نے کہا کہ یہ حرام ہیں اور بعض نے کہا کہ ان کی کراہت کا معنی یہ ہے کہ انہیں ترک کرنا بہتر ہے نہ کہ حرام۔ وہ سات چیزیں یہ ہیں:(1) نر جانور کا عضو تناسل،(2) خصیہ،(3)  مادہ جانور کی شرمگاہ،( 4)غدود، (5)مثانہ (6) پتہ اور (7)وہ خون جو جگر یا گوشت یا تلی میں سے نکلتا ہے۔ لیکن جو خون بہتا ہے اور جاری ہوتا ہے وہ اتفاقاً حرام ہے۔ انتهی کلامه (فاكهة البستان، ص170، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

علامہ ہاشم ٹھٹھوی  کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں:

قلت: أما دم الکبد والطحال فلم أر   فی طھارته وحل أکله خلافًا إلا فی روایۃ الصيدیة  التی قدمناها“

  قلت:  جہاں تک جگر اور تلی کے خون کا تعلق ہے، میں نے اس کی طہارت اور اس کے کھانے کی حلت میں کوئی اختلاف نہیں دیکھا، سوائے روایت صیدیة کے جو ہم نے پہلے بیان کی ہے۔(فاكهة البستان، ص171، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

·    فتاوی افریقہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا:’’خون تھوڑا یا زیادہ کھانا حرام ہے ، اب قربانی کا خون چکھنا حرام ہے یا نہیں ؟ زید کہتا ہے کہ قربانی کا خون ذبح کے وقت اپنی انگلی بھر کے چکھنا درست ہے ۔ یہ قول زید کا باطل ہے یا نہیں؟‘‘

اس کے جواب میں امام اہل سنت علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ’’زید کا قول باطل ہے ۔ خون مطلقاً حرام ہے قربانی کا ہو  یا کسی کا۔ بہت ہو یا تھوڑا۔ رگوں کا خون تو بنص قطعی قرآن کریم حرام قطعی ہے ۔

قال تعالی             اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا

ذبح کے بعد جو خون گوشت سے نکلتا ہے وہ بھی ناجائز ہے یونہی جگر یا تلی کا خون کما فی البحر المحیط جامع الرموز وغیرھما ۔۔۔۔ الخ‘‘(فتاوی افریقہ ، صفحہ164، مکتبہ نوریہ رضویہ ،فیصل آباد)

تنقیح  بصورت ترجیح و تطبیق:

اگر ہم جواز کے جزئیات کی طرف دیکھیں تو وہ بھی  جواز و حلت کا افادہ کرنے میں انتہائی واضح ہیں ۔ اور دوسری طرف ، جزئیات میں ان خونوں کے مکروہ ہونے کا بیان بھی ناقابل تردید ہے۔ تو بظاہر  ان دونوں طرح کی عبارات میں تضاد کی صورت ہے۔

ترجیح :

اگر عدم جواز کے جزئیات سے یہ مراد لیا جائے کہ گوشت ، جگر اور تلی میں جو خون رہ جاتا ہے جب تک اسے دھو کر نکال نہ دیا جائے تب تک یہ گوشت کھانا  جائز نہیں ۔ تو پھر اصولِ افتاء  کے دلائل اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ جواز کا قول ہی راجح ہے۔ اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:

(1)    یہی امام اعظم بلکہ آئمہ ثلاثہ سے مروی ہے ۔ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے ایک روایت اگرچہ یہ ہے کہ یہ خون کپڑوں پر لگ جائے تو معافی نہیں لیکن کھانے کے حوالے سے اس روایت میں بھی معافی مذکور ہے۔

(2)    دلیل کے اعتبار سے بھی یہی راجح ہے کہ  گوشت میں بچ جانے والا غیر  مسفوح خون حرام نہ ہو۔کیونکہ آیت مبارکہ میں خون کی حرمت”دم مسفوح“ کہہ کر  بیان ہوئی  ہے۔ جس سے ہمارے فقہاء کرام نے یہ استدلال کیا ہے کہ جو غیر مسفوح ہے وہ حرام نہیں ہے اوراسی وجہ سے یہ نجس بھی نہیں ہے۔چنانچہ  غنیہ میں ہے:

’’و ما بقی فی اللحم و العروق من الدم الغیر السائل فلیس بنجس و الاصل ان النجس من الدم ماکان مسفوحا لقولہ تعالی او دما مسفوحا فما لیس بمسفوح لا یکون حراما فلا یکون نجسا لان الاصل فی الاشیاء الحل و الطھارۃ الا ماحکم الشرع بحرمتہ او بنجاستہ‘‘

صاحب بدائع  علامہ کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ   غیر مسفوح خون کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آیت مبارکہ

 {قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًااَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہ رِجْسٌ

 لکھنے کے بعد فرماتے ہیں : 

فظاهر الآية يقتضي أن لا محرم سواها فيقتضي أن لا نجس سواها إذ لو كان لكان محرما، إذ النجس محرم، وهذا خلاف ظاهر الآية

(بدائع، 1/161)

(3)    اثرِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بھی جواز کی تائید ہوتی ہے۔ اوردرایت جب  روایت کے موافق ہو تو اس سے عدول نہیں کیا جاتا۔ جب  درایت  موافق ہو تو اسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ فتاوی رضویہ میں ہے: ”اور علماء فرماتے ہیں جب روایت ودرایت متطابق ہوں توعدول کی گنجائش نہیں۔علامہ حلبی نے غنیہ میں فرمایا: لایعدل عن الدرایۃ ماواقفتھا روایۃ۔ اس درایت سے اعراض نہیں کیاجائے گا جو روایت کے موافق ہو۔(ت)“           (فتاوی رضویہ، ج07، ص294)

(4)     جواز والے قول کو ہی الفاظ ترجیح

”بہ اخذوا“

  سے مزین کیا گیاکما مر جبکہ دوسرے قول کی ترجیح نظر سے نہیں گزری۔

(5)    اکثر و جلیل القدر مشائخ نے جواز کو اختیار کیا ہے۔ امام ابو بکر جصاص رازی، امام کرخی ،امام قدوری ،    علامہ کاسانی، امام رضی الدین سرخسی، صاحب خلاصۃ الفتاوی ، صاحب فتاوی تتارخانیہ ، صاحب فتاوی غیاثیہ  وغیرہم

(6)    عدم جواز کا قول اختیار کرنے میں حرج و دشواری ہے، حتی کہ امام ابو یوسف علیہ الرحمہ سے یہ مروی ہوا کہ کھانے میں اس سے بچنا  متعذر ہے۔ لہذا جواز والا قول ہی آسانی و یسر والا ہے ۔

 تطبیق:

یہ سب بحث تو اس صورت میں تھی  کہ جب ہم جزئیات کو متعارض مان کر ایک قول  کی کی ترجیح کی بات کریں۔ لیکن اگر ہم تطبیق کی راہ چلیں تو جواز  اور عدم جواز کے  مذکورہ بالا دونوں طرح کے جزئیات میں تطبیق کی صورت واضح  ہے اور وہ یوں کہ

 جن  فقہاء  نے ان تین طرح کے خونوں کے مکروہ و ممنوع ہونے کی بات کی ہے ان کی مراد یہ ہے کہ اگر گوشت ، جگر و تلی سے نکلنے والے خون کوان اشیاء سے  جدا کر کے مستقل حیثیت سے دیکھا جائے تو اب یہ خون مکروہ و ناجائز کہلائے گا۔

اورجن فقہاء کرام نےگوشت سے نکلنے والے خون کو حلال  و جائز الاکل قرار دیا  ، انکی مراد یہ ہے کہ ذبح کے بعد   جو خون گوشت  میں رہ جاتا ہے اگر اس کو دھوئے اور صاف کئے بغیر اسی طرح گوشت کو پکا لیا جائے تو اس گوشت کو نہ تو ناپاک قرار دیا جائے اور نہ ہی ممنوع و مکروہ قرار دیا جائے گا ۔ یونہی تلی  و جگر کو اس کے اندر والا خون نکالے بغیر اگر پکا لیا جائے یا کسی طرح استعمال کیا جائے تو یہ بالکل جائز و حلال ہوگا۔ گوشت ،جگر اورتلی کی حلت کے ساتھ ضمنا ً و تبعاً اس خون کی حلت بھی ثابت ہوجائے گی۔   فقہ کا مشہور و مسلمہ اصول ہے کہ

” کم من شیئ یثبت ضمنا ولایثبت قصدا 

 یعنی کبھی ایک چیز ، دوسری کے ضمن میں اوراس کی تبع میں ثابت ہو جاتی  ہےلیکن قصدا وہ ثابت نہیں ہوتی۔ بالفاظِ دیگر ،کبھی ایک حکم کسی دوسری چیز کے تبع میں تو ثابت ہو جاتا ہے لیکن قصدا ثابت نہیں ہوتا۔ اور فقہاء کرام فرماتے ہیں  جو چیز کسی کی تبع میں آ رہی ہے اس میں بہت سی ایسی  رعایتیں مل جاتی ہیں جو مستقل  حیثیت رکھنےوالی چیز میں  نہیں دی جاتیں۔

الاشباه میں ہے :

” يغتفر في التوابع ما لا يغتفر في غيرها، وقريب منها؛ يغتفر في الشيء ضمنا ما لا يغتفر قصدا“

 یعنی تابع چیزوں میں وہ باتیں معاف کی جاتی ہیں جو اصل میں معاف نہیں کی جاتیں۔ اور اس کے قریب قریب یہ الفاظ بھی ہیں: کہ  ضمنا پائی جانے والی چیز میں وہ باتیں معاف کی جاتی ہیں جو قصداً معاف نہیں کی جاتیں۔(الأشباه والنظائر، الفن الاول، النوع الثانی ، ص: 103، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

محیط برہانی میں ہے:

 ” يجوز أن يثبت الحكم تبعاً لغيره ولا يثبت قصداً

 یعنی یہ بات درست ہے کہ کبھی   ایک  حکم کسی دوسری چیز کے تابع کے طور پر ثابت ہو جائے  لیکن قصداً ثابت نہ ہو۔ (المحيط البرهاني، جلد7،صفحہ، 404، دار الکتب العلمیہ،بیروت)

امام اہل سنت امام احمد رضا  خان رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

  وکم من شیئ یثبت ضمنا ولایثبت قصدا کاخبار مجوسی اتی بلحم ان فلانا المسلم ارسلہ الیک بھذا ھدیۃ لک فانہ یقبل قولہ فی المعاملات والھدایا منہا، ثم یثبت الحل ضمنا وان کان قول الکافر لایقبل فی الدیانات ومنھا الحل والحرمۃ اصلا“

بہت سی چیزیں ضمناً ثابت ہوتی ہیں قصداً ثابت نہیں ہوتیں جیسے کسی شخص کے پاس کھانا لانے والے مجوسی کا خبر دینا کہ اس کو فلاں مسلمان نے یہ کھانا تیرے لئے بطور ہدیہ دے کرتیرے پاس بھیجا ہے، بیشک مجوسی کا قول معاملات میں مقبول ہوتا ہے اور تحائف بھیجنا معاملات میں سے ہے، پھر اس کھانے کا حلال ہونا ضمناً ثابت ہوجائے گا اگرچہ امور دینیہ میں کافر کا قول بالکل مقبول نہیں ہوتا اور حلال وحرام ہونا امور دینیہ میں سے ہے،(ت) (فتاوی رضویہ، 18/116، رضافا ؤنڈیشن، لاہور)

تطبیق کی جزئیات سے تائید:

مذکورہ بالا تطبیق کی تائید جواز وممانعت دونوں طرح کے جزئیات سے بھی حاصل ہوتی ہے مثلا

·    جواز کا ایک  استدلال اثرِ سیدتنا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  سے کیا گیا جس میں بیان ہوا کہ” ہنڈیا میں گوشت پکایا  جائے اور اس میں گوشت کے خون کی زردی یا سرخی  ظاہر ہو تو کوئی حرج نہیں۔“ (مفہوماً ) اس روایت میں قصدا خون  کھانے کے جواز کی بات نہیں ہے بلکہ اس گوشت کے جائز ہونے کی بات کی گئی ہے جس میں خون باقی رہ گیا۔ امام جصاص  علیہ الرحمہ کی عبارت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے ۔ ملا حظہ کریں:

”وأما اللحم یخالطہ الدم فلا بأس بہ وروی القاسم بن محمد عن عائشۃ  ۔۔۔۔ ولا خلاف بین الفقہاء فی جواز أکل اللحم مع بقاء أجزاء الدم فی العروق 

لہذا  اس روایت و کلام فقہاء سے واضح ہے کہ یہاں گوشت کی تبع میں ہی گوشت کے خون کی حلت کا بیان ہورہا ہے۔

·     یونہی اکثر جزئیات میں جواز  و حلال ہونےکی بات یوں کی گئی ہے کہ

 ” ما یکون فی اللحم ملتزقا بہ فلا باس بہ “

  یا یوں کہا گیا :

 ” ما بقی فی العروق واللحم من الدم ۔۔۔“

یعنی جو خون گوشت کے ساتھ جڑا رہتا ہے ،یا جو اس میں باقی رہ جاتا ہے تو ا س میں کوئی حرج نہیں۔ ان جزئیات سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ جواز گوشت کے ساتھ ملتزق ہونے اور گوشت میں باقی رہ جانے کی وجہ سے تبعاً ہے۔

·     علامہ کاسانی   کے کلام اور غیاثیہ کی عبارت  میں تو جواز  و حلال ہونے کا حکم گوشت کے ساتھ مقید کر کے ہی بیان کیا ہے چنانچہ علامہ کاسانی نے گوشت کے خون کی طہارت بیان کرنے کے بعد یوں لکھا:

’’ ولهذا حل تناولہ مع اللحم ‘‘

   اور غیاثیہ نے یوں لکھا:

 ” و یؤکل مع اللحم “

یعنی یہ خون جو گوشت میں رہ جاتا ہے اس کا گوشت کے ساتھ کھانا جائز ہے۔  ان عبارات کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ گوشت سے جدا کر کے ان کو کھانا حلال نہیں ۔  اس مفہوم مخالف کے اعتبار سے تو یہ ہماری بیان کردہ تطبیق کی واضح دلیل  ہے۔

·     دوسری طرف  ممانعت  و عدم جواز کی جو عبارات ہیں ان میں سب سے واضح  عبارت فتاوی افریقہ کی ہے کہ جس میں ان خونوں کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے ۔ وہاں سوال میں یہ بات تھی کہ ” زید کہتا ہے  کہ قربانی کا خون ذبح کے وقت اپنی انگلی بھر کے چکھنا درست ہے “ یعنی واضح طور پر خون کو گوشت سے جدا  کر کے چکھنےکے متعلق  سوال تھا جس کے متعلق امام اہل سنت نے ناجائز کا حکم ارشاد فرمایا۔   اور یہ واضح کر دیا  کہ گوشت کے ضمن و تبع میں اگر خون نہ ہوبلکہ جدا و مستقل ہو  تو پھر  جائز نہ ہوگا۔

·    ممانعت وکراہت کے دیگر جزئیات میں  سے کوئی ایک بھی ایسا جزئیہ نہیں جس میں گوشت کے ساتھ ضمنا و تبعا لگے ہوئے خون کو مکروہ و ممنوع قرار دیا ہو۔ نہ ہی کسی جزئیے میں اس بات کا حکم دیا گیا کہ گوشت کو یا جگر و تلی کو دھو کراور خون نکال کر کھائیں ۔تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ ممانعت یا مکروہ کا بیان جنہوں نے کیا ان کی مراد یہی ہے کہ جب اس خون کو گوشت سے جدا کر کے مستقل حیثیت سے دیکھیں تو پھر یہ خون مکروہ و ممنوع ہے ورنہ  گوشت کے ساتھ تبعاً استعمال ہو رہا ہو، تو پھر کسی قسم کی کراہت نہیں ۔

·    بعض علماء کے کلام میں اس تطبیق کی صراحت بھی ہے چنانچہ قاضی ابو بکر ابن العربی مالکی احکام القرآن میں لکھتے ہیں :

” قال الإمام الحافظ: الصحيح أن الدم إذا كان مفردا حرم منه كل شيء، وإن خالط اللحم جاز؛ لأنه لا يمكن الاحتراز منه “

یعنی امام حافظ رحمہ اللہ نے فرمایا: صحیح یہ ہے کہ جب خون الگ ہو تو اس کی ہر صورت میں حرمت ہے، لیکن اگر وہ گوشت کے ساتھ ملا ہوا ہو تو جائز ہے، کیونکہ اس سے بچنا ممکن نہیں۔ (أحكام القرآن لابن العربي، جلد2، صفحہ  291، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

تطبیق کی ایک اور صورت:

ایک تطبیق یوں بھی ہو سکتی ہے کہ   خون جب گوشت سے نکل کر جدا ہو تو اس  جدا ہونے والے خون کو تو مکروہ تحریمی شمار کیا جائے اور  جب تک وہ گوشت کے ساتھ ہے تو اس حالت میں اس کی کراہت کو ، کراہت تنزیہی پر محمول کیا جائے  کیونکہ جواز کے جزئیات کراہتِ تنزیہی کے منافی نہیں ہیں۔ اس کا تقاضا یہ ہوگا کہ گوشت ، جگر وغیرہ کوخون سے صاف کئے بغیر استعمال کرنا ،شرعا گناہ تو نہیں لیکن  ناپسندیدہ ہے۔  لہذا حتی الامکان ان اشیاء کو دھو کر اورباقی ماندہ خون صاف کر کے پھر استعمال کیا جائے۔

دم القلب(دل کے خون) کے متعلق بحث:

یہاں تک بحث تھی گوشت ، جگر و تلی کے خون کے متعلق ۔اور جہاں تک جانور کے دل کے خون کی بات ہے تو غور کیا جائے تو اس کا معاملہ بھی ان مذکورہ  تین خونوں کی طرح ہی  ہے۔ اور کوئی ایسی وجہ نہیں کہ  جس کی بنیاد پر اس کا حکم دیگر مذکورہ تین خونوں سے الگ بیان کیا جائے۔

 لہذا اگرچہ فقہاء کرام نے  حلال جانور کے ممنوع اجزاء شمار کرتے ہوئے دل کے خون ذکر نہیں کیا لیکن حکما یہ بھی انہیں کے ساتھ لاحق ہوگا ۔ اسی وجہ سے  امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں  جب حلال جانورکے ممنوع اجزاء شمار کیے تو دل کے خون کو بھی  ایک الگ جزو کی حیثیت سے شمار کرتے ہوئے ممنوع قرار دیا چنانچہ آپ لکھتے  ہیں :

”[ممنوعہ اجزاء شمار کرتے ہوئے فقہاء کرام نے] جگر وطحال وگوشت کے خون گنے اور  خونِ قلب چھوڑ گئے حالانکہ وہ قطعا ان کے مثل ہے۔ یہاں تک کہ عتابیہ وخزانۃ وقنیہ وغیرہامیں اس کی نجاست پر جزم کیا، اور اسی طرح امام برہان الدین فرغانی صاحب ہدایہ نے کتاب التجنیس والمزید میں فرمایا، اگرچہ روضہ ناطفی ومراقی الفلاح ودرمختار وردالمحتار وغیرہا  اسفار میں طہارت کو مختار رکھا، اور ظاہر ہے کہ نجاست مثبت حرمت ہے اور طہارت مفید حلت نہیں ،

حلیہ میں ہے:

 فی القنیۃ دم قلب الشاۃ نجس والیہ مال کلام صاحب الهدایۃ فی التجنیس وفی خزانۃ الفتاوٰی دم القلب نجس ودم الکبد والطحال لا

رحمانیہ میں ہے:

 فی العتابیۃ دم القلب نجس، ودم الکبد والطحال لا “

(فتاوی رضویہ،جلد 20، صفحہ 237، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اس  عبارت میں امام اہل سنت نے ممنوع ہونے کا درجہ واضح طور پر تو متعین نہیں فرمایا لیکن  اندازِ بیان سے ظاہر ہے کہ  یہاں حرمت کی ایک   وجہ نجس ہونا  بھی ہے اور یہ وجہ ایسی ہے کہ  جو اس ممانعت کا درجہ متعین کر دیتی ہے اور وہ درجہ ناجائز  کا  ہے ۔

یہ فتاوی رضویہ کی عبارت کا ظاہری مفاد تھا لیکن فتاوی افریقہ میں تو امام اہل سنت نے  اس کا ناجائز  ہونا صراحت کے ساتھ بیان کر دیا چنانچہ لکھتے ہیں:

’’زید کا قول باطل ہے ۔ خون مطلقاً حرام ہے قربانی کا ہو کسی کا۔ بہت ہو یا تھوڑا۔ ۔۔۔۔۔اور دل کا خون تو خود نجس ہے اور ہر نجس حرام ۔ حلیہ و قنیہ و تجنیس و عتابیہ و خزانۃ الفتاوی وغیرھا میں ہے دم قلب الشاۃ نجس واللہ تعالیٰ اعلم ‘‘(فتاوی افریقہ ، صفحہ164، مکتبہ نوریہ رضویہ ،فیصل آباد)

لہذاان جزئیات کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ ہم اس خون کو مکروہ تنزیہی قرار دیں۔  بلکہ دل کا خون بھی جانور کے ان ممنوعہ اجزاء میں سے ہے جن کا کھانا ، ناجائز و گناہ ہے۔

سوال :

گوشت میں رہ جانے والے خون اور  جگر و تلی کے خون کے متعلق جو آپ نے اوپر تنقیح بیان کی کہ یہ تینوں خون اس وقت ناجائز کہلائیں گے جب ان کو گوشت سے جدا کر کے مستقل حیثیت سے دیکھا جائے گا اور گوشت کے متصل ، تبعا جب استعمال ہوگا تو اب ناجائز کا حکم نہیں ہوگا۔ کیا یہی حکم دل کے خون کا بھی ہوگا یا یہاں حکم مختلف ہوگا؟ اگر وہی حکم ہے جو  مذکورہ تین خونوں کا بیان ہوا تو پھر یہاں مزید یہ سوال ہے  کہ وہ تین خون تو راجح قول کے مطابق پاک تھے لیکن یہاں تو امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے دل کے خون کو واضح طور پر نجس قرار دیا تو اس کا حکم مذکورہ تین خونوں کی طرح کیسے ہو سکتا ہے ؟

جواب:

دل کے خون کا حکم بھی  مذکورہ تین خونوں کی طرح ہی ہے ۔  یعنی  اگر  جانور کے دل سے خون نكلے تو اس خون   كوجدا حیثیت سے دیکھا جائے تو وہ  ممنوع و ناجائز ہی  شمارہوگا۔ اس لئے حکم یہی ہے کہ پکانے سے قبل  حتی الامکان  دل کو چیر  خون صاف کر لیا جائے ۔ لیکن اگر دل  کو چیر کر خون صاف کئے بغیر  پکا لیا گیا تواب اس دل کو  حرام نہیں  کہیں گے۔کیونکہ اول تو اس  میں خون  موجود ہونے کا علم او رثبوت ہی  نہیں ہوا اس لئے  کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل کو چیرا جائے تو اس میں سے خون نہیں نکلتا جیسا کہ مرغی کے دل میں  ایسا مشاہدہ ہوا ہے  ۔اور حرام  کی  یقینی موجودگی  کے بغیر حرام ہونے کا حکم نہیں دیا جا سکتا۔ نیز یہ بھی  گوشت میں  باقی  رہ جانے والے  خون  کی طرح ہی ہے۔ تو جس طرح وہاں گوشت کے ضمن و تبع میں  ہونے کی وجہ  سے خون  کوئی حکمِ  حرمت  نہیں لاتا  یہاں بھی دل کے گوشت کے ضمن میں و تبع میں آنے کی وجہ سے اس خون سے کوئی حرمت کا حکم نہیں ہوگا۔ اس حکم میں مماثلت کی دلیل امام اہل سنت کے الفاظ ہی ہیں جو آپ نے تفصیلی فتوے کے اندر استعمال کئے چنانچہ  دل کے خون کے متعلق لکھا: ”  وہ قطعا ان کے مثل ہے۔ “

نیزفقہاء کرام نے   گوشت کے خون کے متعلق جو یہ فرمایا کہ 

” ما یکون فی اللحم ملتزقا بہ فلا باس بہ “ 

یا یوں کہا گیا :

 ” ما بقی فی العروق واللحم من الدم ۔۔۔“

توان عمومی و مطلق  جزئیات کے تحت دل کا حکم بھی شامل ہے کہ یہ بھی ” ما بقی فی العروق واللحم “ ہی ہے۔

باقی رہا یہ سوال  کہ اس خون کو تو اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے نجس قرار دیا ہے تو اس کا حکم  دیگر تین خونوں کی طرح کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ ان میں تو راجح پاک ہونا ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی چیز پر نجس و ناپاک ہونے کا حکم اس وقت لگتا ہے جب وہ اپنے معدن (قدرتی و فطرتی مقام ) سے جدا ہو جائے۔ لہذا جب تک وہ اپنے معدن میں ہو اس  وقت تک اس پر ناپاکی کا حکم نہیں لگتا۔ اور بکری کے دل کا خون جب  اس دل سے باہر نکل جائے تو  اس وقت یہ حرام بھی ہو گا اور ناپاک بھی شمار ہوگا ۔ لیکن جب تک دل کے اندر ہے تو وہ اپنے معدن  میں ہے اس لئے اس حالت میں اس پر ناپاکی کا حکم نہیں لگے گا۔

علامہ شامی رد المحتار میں لکھتے ہیں :

”لو صلى حاملا بيضة مذرة صار محها دما جاز لأنه في معدنه، والشيء ما دام في معدنه لا يعطى له حكم النجاسة“

 یعنی  اگر کسی نے اس حالت میں نماز پڑھی کہ اس کے پاس ایسا خراب  انڈہ تھا کہ جس کہ زردی خون ہوگئی تھی تواس کی نماز جائز ہے کیونکہ  خون اپنے معدن میں ہے اور  کوئی چیز جب تک اپنے معدن میں ہو اس پر نجاست کا حکم نہیں دیا جاتا۔(رد المحتار، جلد1، صفحہ 403، دار الفکر، بیروت)

امام جصاص رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں :

” والدليل على ذلك اتفاق المسلمين على جواز أكل اللحم بما فيه من العروق مع مجاورة الدم لدواخلها من غير تطهير ولا غسل لذلك فدل ذلك على أن موضع الخلقة لا ينجس بالمجاورة لما خلق فيه“

 یعنی اس کی دلیل یہ ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گوشت کو دھوئے او رپاک کئے بغیر ، اس میں موجود رگوں کے ساتھ کھانا جائز ہے، حالانکہ ان رگوں کے اندر خون  مجاور (موجود و ملا) ہوتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز اپنی فطری تخلیق کے مطابق کسی جگہ پائی جاتی ہے، وہ محض مجاورت (ساتھ لگنے) کی وجہ سے نجس نہیں ہوتی۔(أحكام القرآن للجصاص ، جلد1، صفحہ 146، دار الكتب العلمية بيروت)

امام اہل سنت سیدی اعلی  حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ” ایک کُنویں میں پُھکنا (مثانہ)گر گیا اُس وقت اُس میں پیشاب نہ تھا بلکہ بچّے اُس میں پھُونک رہے تھے اُن کے ہاتھ سے گر گیا یہ معلوم نہیں کہ گائے کا ہے یا بھینس کا پھکنا نکال لیا گیا اب کُنویں کی نسبت کیا حکم ہے۔ “

تو آپ نے اس کے جواب میں لکھا:

” کنواں پاک ہے کہ مذبوح جانور ماکول اللحم کا پھکنا بالاتفاق اپنی ذات میں تو کوئی نجاست نہیں رکھتا ۔۔۔۔ یہاں اگر ذبح ہونا معلوم نہیں تو مُردار سے ہونا بھی معلوم نہیں،

والیقین لایزول بالشک  اقول والمحل محل الطھارۃ والنجاسۃ دون الحل والحرمۃ فافھم

رہا یہ کہ اس میں پیشاب ہوتا ہے اور عادۃً اُسے پاک کرنے کے طور پر دھویا نہیں جاتا تو اس کے باطن میں وہ رطوبت بدستور لگی رہی یہ یہاں کچھ مضر نہیں کہ پھکنا معدنِ بول ہے اور نجاست جب تک اپنے معدن میں ہو اُسے حکمِ نجاست نہیں دیا جاتا اُس کے جوف میں کوئی ناپاک شے نہ تھی۔۔۔۔ الخ“ (فتاوی رضویہ،جلد 03، صفحہ267 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

لہذا یوں اگر دل کو چیر کر صاف کئے بغیردل کو پکا لیا گیا تو نہ اس پر ناپاکی کا حکم ہوگا اور نہ حرمت و گناہ کا بلکہ وہی گوشت کی تبع میں آنے کی وجہ سے طہارت و حلت کا حکم رہےگا۔لہذا اس  صورت میں اس کا حکم بھی مذکورہ بالا تین خونوں کی طرح ہوگا۔ہاں اگر  دل سے  خون  باہر نکلےتو وہ ناپاک قرار پائے گا۔

یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب دل کے خون کے متعلق نجس والا قول اختیار کیا جائے ورنہ جس طرح امام اہل سنت نے خود بیان کیا کہ معتمد فقہاء کرام کا ہی دوسرا قول بھی موجود ہے جس کے مطابق یہ خون پاک ہے۔ تو اس  دوسرےقول  کے مطابق اس خون کا حکم مذکورہ بالا تین خونوں کی طرح قرار دینے میں اصلا کوئی شبہ نہیں رہ جاتا۔

محیط برہانی و تتار خانیہ میں ہے:

” ورأيت في موضع آخر: الطحال إذا شق وخرج منه دم  لیس بسائل فليس بشيء، وكذا الدم الذي في القلب ليس بشيء، ذكر المسألة مطلقة من غير فصل بين دم ودم “

اور میں نے ایک اور جگہ دیکھا: جب تلی کو چیرا جائے اور اس سے خون نکلے جو بہنے والا نہ ہو، تو یہ کچھ نہیں (یعنی ناپاک نہیں) ۔ اسی طرح دل میں موجود خون کی بھی کچھ نہیں ۔ اس مسئلے کو کسی خون اور دوسرے خون کے درمیان فرق کیے بغیر مطلقاً بیان کیا گیا ہے۔ (المحيط البرهاني ، جلد1، صفحہ 189، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

اسی طرح علامہ برجندی لکھتے ہیں :

  والدم الذی فی القلب لیس بنجس  کذا فی المحیط

یعنی جو خون دل میں ہوتا ہے وہ نجس نہیں ، ایسا ہی محیط میں ہے۔(شرح نقایہ للبرجندی، صفحہ38، مخطوط)

بلکہ اسے مذہب  مختار بھی کہا گیا ہے : چنانچہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:

” في حاشية الأشباه للغزى دم قلب الشاة وما لم يسل من بدن الإنسان طاهر على المذهب المختار “

 یعنی حاشیہ الأشباه للغزی میں ہے: بکری کے دل کا خون اور وہ خون جو انسانی بدن سے نکلے لیکن  نہ بہے، یہ مذہبِ مختار کے مطابق پاک ہے۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح، ص: 154،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL-0187

تاریخ اجراء: 07 شعبان المعظم    1446 ھ/06 فروری    2025ء