نوکری چھوڑنے سے پہلے اطلاع نہ دینے پر ایک ماہ کی تنخواہ کاٹنا

ملازمت چھوڑنے سے تین ماہ پہلے نہ بتانے پر ایک ماہ کی تنخواہ ضبط کرنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

زید ایک اسکول کا مالک ہے، وہ جب کسی نئے ٹیچر کو رکھتاہے، تو اس کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ ہم آپ کے پہلے ماہ کی تنخواہ سیکورٹی کے طور پر رکھیں گے، اگر آپ چھوڑنے سے تین ماہ قبل نہیں بتائیں گے تو آپ کی پہلے سے جمع شدہ ایک ماہ کی تنخواہ ہم رکھ لیں گے ، زید کا ایسا کرنا کیسا ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اسکول مالکان کا ٹیچر کےاسکول چھوڑنے کی صورت میں تین ماہ قبل نہ بتانے پر اس کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹ لینا، ظلم وناجائز و گناہ ہے کہ یہ مالی جرمانے کی صورت ہے اور مالی جرمانہ منسوخ ہے، جس پر عمل حرام ہے۔ نیز معاہدے میں یہ شرائط رکھنا بھی ناجائز ہے جس سے معاہدہ ہی فاسد ہو جائے گا اور لازم ہو گا کہ اس معاہدے کو ختم کر کے ناجائز شرائط کوحذف کریں اور اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق دوبارہ معاہدہ کریں۔

نیز حدیثِ پاک کا مفہوم ہے کہ اجیر کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلےدیدی جائے، جبکہ یہاں اسکول مالکان ٹیچر کی پہلے ماہ کی اجرت (تنخواہ) اپنے پاس روکے رکھتے ہیں جو کہ شرعی اصول و ضوابط کے خلاف ہے، لہٰذا مہینہ مکمل ہونے پر اجیر کو اس کی اجرت دیدی جائے۔

حدیث پاک میں فوراً  اجرت ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ المصابیح، مسندابی یعلیٰ، شرح مشکل الآثاراور سنن الکبریٰ للبیہقی میں ہے:

واللفظ للاول: ”عن عبد الله بن عمر، قال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: أعطوا الأجير أجره، قبل أن يجف عرقه“

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اجیر کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔  (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث 2443، جلد 2، صفحہ 817، دار احیاء الکتب العربیۃ )

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”یونہی ملازمت بلااطلاع چھوڑ کر چلاجانا اس وقت تنخواہ قطع کرے گا نہ کہ تنخواہ واجب شدہ کوساقط اور اس پر کسی تاوان کی شرط کرلینی مثلا نوکری چھوڑناچاہے تو اتنے دنوں پہلے سے اطلاع دے، ورنہ اتنی تنخواہ ضبط ہوگی یہ سب باطل وخلاف شرع مطہر ہے، پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقد اجارہ میں لگائی گئیں جیساکہ بیان سوال سے ظاہر ہے کہ وقت ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لئے جاتے ہیں، یا ایسے شرائط وہاں مشہور ومعلوم ہو کر المعروف کالمشروط ہوں، جب تو وہ نوکری ہی ناجائز وگناہ ہےکہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا، اور عقد فاسد حرام ہے اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ، اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب۔ (فتاوی رضویہ، جلد19، صفحہ 506، 507، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

اسلام میں مالی جرمانہ جائز نہیں، چنانچہ بحرالرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

’’التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام، ثم نسخ‘‘

 ترجمہ: مالی جرمانہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔ (بحرالرائق شرح کنز الدقائق، جلد5، صفحہ 44، دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی رضویہ میں ہے ’’تعزیر بالمال منسوخ ہےاور منسوخ پر عمل جائز نہیں۔درمختار میں ہے:

’’ لا باخذمال فی المذھب‘‘

 ترجمہ: مالی جرمانہ مذہب کی رو سے جائز نہیں ہے۔‘‘  (فتاوی رضویہ، ج5، ص111، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4386

تاریخ اجراء: 04جمادی الاولی1447 ھ/27اکتوبر2025 ء