
مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
مجیب: مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر: Sar-9291
تاریخ اجراء: 05 رمضان المبارک 1446 ھ/06 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ کیا غیر مسلم کو صحت و عافیت اور حادثات سے بچنے کی دعا دے سکتے ہیں یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
غیر مسلم کے لئے مغفرت اور اس سے متعلقہ امور جیسے جنت میں داخل ہونے کی دعا کرنا، ناجائز، حرام، بلکہ کفر ہے، ہاں ہدایت، صحت و عافیت اور حادثات سے بچنے کی دعا کرناشرعا جائز ہے تا کہ ان کے دل نرم ہوں اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوں۔
کافر کی مغفرت نہ ہونے کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشادفرماتاہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُ﴾
ترجمہ کنزالعرفان:بیشک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے۔ (القرآن، سورۃ النساء، آیت 48)
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالیٰ عَلَیْہ لکھتے ہیں: ’’کافر کے لئے دعائے مغفرت وفاتحہ خوانی کفر خالص وتکذیبِ قرآن عظیم ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 228، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)
کافر کے لئے دعائے خیر کے متعلق حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہ سے روایت ہے:
”استسقى النبيُّ صلی اللہ علیہ و سلم، فسقاه يهودي، فقال له النبيّ صلی اللہ علیہ و سلم: جمّلك اللہ فما رأى الشيب حتى مات“
ترجمہ: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ کو پانی کی طلب ہو ئی، تو ایک یہودی نے آپ کو پانی پلایا، تو اس پر آپ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّمَ نے اسے فرمایا: اللہ کریم تیرے چہرے کوخوبصورت رکھے۔ راوی کہتے ہیں اس یہودی کو بوڑھا نہیں دیکھا گیا، حتی کہ وہ مر گیا۔ (عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی، صفحہ 253، مطبوعہ دار القبلة للثقافة الإسلامية)
سراج المنیر شرح جامع الصغیر میں ہے:
”عن ابن عباس (إذا دعوتم لأحد من اليهود و النصارى) أي أردتم الدعاء له (فقولوا أكثر اللہ مالك) لأن المال قد ينفعنا بجزيته أو موته بلا وارث (و ولدك) لأنهم قد يسلمون أو نأخذ جزيتهم أو نسترقهم بشرطه و إن ماتوا كفار فيهم فداؤنا من النار و يجوز الدعاء له بنحو عافية لا مغفرة قال العلقمی فيه أي هذا الحديث جواز الدعاء للذمی بتكثير المال و الولد و مثله الهداية و صحة البدن والعافية ونحو ذلك ويؤيده ما في كتاب ابن السني عن أنس قال استسقى النبي صلی اللہ علیہ و سلم فسقاه يهودي فقال له النبي صلی اللہ علیہ و سلم جملك الله فما رآى الشيب حتى مات و يمتنع الدعاء له بالمغفرة و نحوها لقوله تعالى إن اللہ لا يغفر أن يشرك به“
ترجمہ: حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالیٰ عَنْہُمَا سےمروی ہے کہ تم جب کسی یہودی یا عیسائی کو دعا دینے کا ارادہ کرو،تو کہو کہ اللہ کریم تیرا مال زیادہ کرے، کیونکہ اس کے مال سے جزئیہ کے ذریعے یا اس کے بغیر وارث مرنے سے ہمیں نفع پہنچے گا اور اس کے لیے اولاد کی کثرت کی دعا کرو، کیونکہ ممکن ہے کہ ان کی اولاد اسلام قبول کرلے، یا ہمیں جِزئیہ دے، یا جنگ میں ہم انہیں قید کر کے غلام بنا لیں۔ اور اگر وہ کفر پر ہی مریں، تو ہمارے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اور مغفرت کی دعا کے علاوہ کفار کے لیے صحت و عافیت وغیرہ کی دعا کرنا ، جائز ہے۔ امام علقمی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ذمی کے لیے مال، اولاد، ہدایت، صحت اور عافیت کی دعا کرنے کے جواز پر دلیل ہے، اس کی تائید علامہ سُنّی رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بیان کردہ روایت سے بھی ہوتی ہے (جس کا ترجمہ پہلے جزئیے میں گزر چکا)۔(السراج المنير شرح الجامع الصغير، جلد 1، صفحه 127- 128، مطبوعه دار النوادر)
شارح مسلم علامہ نووی رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ لکھتے ہیں:
”اعلم أنه لا يجوز أن يدعى له بالمغفرة و ما أشبهها للكفار لكن يجوز أن يدعى له بالهداية و صحة البدنِ و العافية و شبه ذلك“
ترجمہ: یہ بات جان لو! کفار کے لیے مغفرت اور اس کے متعلقہ امور کی دعا کرنا، جائز نہیں، لیکن کفار کے لیے ہدایت، تندرستی اور عافیت وغیرہ کی دعا کرنا، جائز ہے۔ (کتاب الاذکار للنووی، صفحہ 509، مطبوعہ دار ابن حزم للطباعة و النشر)
فتاوی شامی اور محیط برہانی میں ہے،
و اللفظ للآخر: ”قال لذمی اطال اللہ بقاءک ان کان نیتہ ان اللہ یطیل بقاءہ لیسلم او یؤدی الجزیۃ عن ذل و وصغار فلا بأس بہ و ان لم ینو شیئا یکرہ“
ترجمہ: اگر کسی نے ذمی کو کہا: اللہ تبارک و تعالی تمہاری زندگی لمبی کرے، اگر اس کی نیت یہ ہو کہ اللہ تبارک و تعالی اس کی زندگی اس لیے لمبی کرے تاکہ یہ اسلام لے آئے یا یہ ذلیل و خوار ہو کر جزیہ دیتا رہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور اگر کوئی نیت نہ ہو، تو پھر مکروہ ہے۔ (محیط برھانی، کتاب الاستحسان و الکراہیۃ، جلد 5، صفحہ 366، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)
علامہ شامی رَحْمَۃ ُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ اسی مسئلہ کے تحت رد المحتار میں لکھتے ہیں:
”و ذكر البيری أخذا من نظائرها أنه لا يكره و ليس بعد النص إلا الرجوع إليه و الظاهر أن الذمي ليس بقيد“
ترجمہ:امام بیری نے اس کی نظائر سے اخذ کر تے ہوئے بیان کیا کہ یہ مکروہ نہیں۔ نص کے بعد اس کی طرف ہی رجوع ہوگا۔ ظاہر یہ ہے کہ ذمی کی قید نہیں(یعنی حربی و مستامن کے لئے بھی دعا کر سکتے ہیں)۔ (رد المحتار، کتاب الحظر و الاباحۃ، جلد 6، صفحہ 413، مطبوعہ دار الکفر بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”اس بارہ میں تحقیق یہ ہے کہ یہ امر مصلحت وقت وہ حالت ہدیہ آرندہ وہدیہ گیرندہ پر ہے اگر تالیف قلب کی نیت ہے اور امید رکھتاہے کہ اس سے ہدایاو تحائف لینے دینے کا معاملہ رکھنے میں اسے اسلام کی طرف رغبت ہوگی تو ضرور لے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 21، صفحہ 625، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی بحرالعلوم میں ہے: ”غیرمسلموں کے لئے ایسی دعائیں کرنے کی ممانعت ہے، جس کا تعلق فلاح ِ دارین سے ہو۔باقی شفائے امراض یا دنیا کی معمولی بھلائی جس کا تعلق انسانی مروت سے ہو یا ان کے لیے ہدایت کی دعا کرنے کی ہر گز ممانعت نہیں۔ متعدد حدیثوں سے غیر مسلموں کے لیے ایسی دعا دینے کا پتہ چلتا ہے، و اللہ تعالی اعلم۔“(فتاوی بحر العلوم، جلد 05، صفحہ 360، مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم