
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل جیولری ڈیزائننگ اور تخلیقی فنون کے میدان میں بعض افراد ”یادگار زیورات“ کے نام پر ایک نئی طرز کے زیورات تیار کروا کر اپنے پیاروں یا کسی عزیز کو تحفے میں بھیجتے ہیں۔ ان زیورات کی تیاری کے لیے وہ افراد اپنا خون نکال کر ”بلڈ کلیکشن ٹیوب“ میں محفوظ کرتے ہیں ، اور یہ خون زیور تیار کرنے والے کو بھیج دیتے ہیں۔ پھر وہ کاریگر مخصوص کیمیکلز یا ریزن (Resin) کے ذریعے اس خون کو جما کر جھمکوں، لاکٹ، انگوٹھیوں اور چوڑیوں وغیرہ کے سانچوں میں ڈھال کر خوبصورت زیورات تیار کرتا ہے، جن میں خون کی رنگت واضح طور پر دِکھائی دیتی ہے، اب سوال یہ ہےکہ انسانی خون والے زیورات بنوانا کیسا ؟اس کے متعلق رہنمائی فرما دیں۔
سائل: محمد معظم عطاری (فیصل آباد)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ طریقہ کے مطابق انسانی خون کی آمیزش والے زیورات بنوانا، ناجائزو حرام اور گناہ کا کام ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ خون انسانی اجزاء میں سے ہے اور اس سے انتفاع( نفع حاصل کرنا) ناجائز و حرام ہے، نیز ان زیورات میں جو خون شامل کیا جاتا ہے، وہ بہنے کی مقدار ہوتا ہے اور بہنے والا خون ناپاک ہے، اس طریقہ کار میں اس نجس خون کے ذریعے پاک چیز کو بلاضرورت ناپاک کرنے کا عمل بھی موجود ہے، جبکہ شریعت مطہرہ میں بلاضرورت شرعی پاک چیز کو ناپاک کرنا، ناجائزو گناہ ہے، لہذا ان وجوہات کی بِنا پر یہ زیورات بنوانا جائز نہیں اور اس عمل سے اجتناب کرنا لازم ہے۔
خون کے حرام ہونے کے متعلق اللہ کریم نے ارشاد فرمایا:
﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اس نے تم پر صرف مردار اور خون اور سُور کا گوشت اور وہ جانور حرام کئے ہیں جس کے ذبح کے وقت غیرُ اللہ کا نام بلند کیا گیا۔ (پارہ 2،سورۃ البقرۃ، آیت: 173)
خون سے نفع حاصل کرنا ، جائز نہیں، جیساکہ تفسیر خازن میں ہے:
اتفق العلماء على أن الدم حرام نجس لا يؤكل، و لا ينتفع به
ترجمہ: اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ خون نجس و حرام ہے ،اسے نہ کھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ (تفسیرخازن، جلد 1، صفحہ 103، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بیروت)
سوال میں بیان کردہ زیورات میں بہنے کی مقدار خون شامل کیا جاتا ہے اور بہتاخون نجس ہے، جیساکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ
ترجمہ کنز العرفان:تم فرماؤ، جو میری طرف وحی کی جاتی ہے، اُس میں کسی کھانے والے پر میں کوئی کھانا حرام نہیں پاتا مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں میں بہنے والا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کیونکہ وہ ناپاک ہے یا وہ نافرمانی کا جانور ہو جس کے ذبح میں غیرُاللہ کا نام پکارا گیا ہو۔ (القرآن، پارہ 8، سورۃ الانعام، آیت: 45)
دم مسفوح سے مراد بہتا ہوا خون ہے، جیساکہ تفسیردرمنثورمیں ہے:
عن ابن جریج فی قولہ(اَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا)قال المسفوح الذی یھراق
ترجمہ: حضرت ابن جریج رضی اللہ عنہ سے اس قول”دمامسفوحا“کے بارے میں مروی ہے کہ آپ نے ارشادفرمایا:مسفوح سے مراد وہ خون ہے جوبہتاہو۔ (تفسیر درمنثور، جلد 3، صفحہ 383، مطبوعہ دارالفكر، بيروت)
دم مسفوح کی تعریف کے متعلق غنیۃ المستملی میں ہے:
الدم المسفوح ماسال منہ
ترجمہ: بہنے والا خون دم مسفوح ہے۔ (غنیۃ المستملی، صفحہ 171، مطبوعہ کوئٹہ)
بہتا ہوا خون نجس ہے جیسا کہ بنایہ میں ہے:
و الدم السائل نجس مطلقا
ترجمہ: بہتا ہوا خون مطلقا ناپاک ہے۔ (البنایہ شرح الھدایہ، جلد 1، صفحہ 263، مطبوعہ دار الكتب العلمية، بیروت)
اور بلاضرورت پاک چیز کو نجس کرنا ناجائزہے، جیسا کہ حاشیہ طحطاوی علی المراقی میں ہے:
و تنجيس الطاهر بغير ضرورة لا يجوز
ترجمہ: پاک اشیاء کو بلا ضرورت ناپاک کرنا جائز نہیں ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، صفحہ 47، مطبوعہ کوئٹہ)
فتاوٰی رضویہ میں ہے: ’’بلا ضرورت پاک شے کو ناپاک کرنا ناجائز و گناہ ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 1073، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9401
تاریخ اجراء: 21 محرم الحرام 1446ھ / 17 جولائی 2025ء