
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ایک ڈاکٹر نے اپنا کلینک کھولا ہوا ہے، جب اس کے پاس کوئی مریض آتا ہے اور اسے کوئی مسئلہ ہوتا ہےمثلاً اس کو پیٹ میں درد ہے یا کوئی سی بھی پریشانی ہے، تو وہ کہتا ہے ”جاؤ فلاں جگہ پہ الٹرا ساؤنڈ کرا لو یا بلڈ چیک کرا لو“ تو جو پیسے وہاں پر اس مریض سے لیے جاتے ہیں، ان میں ڈاکٹر کاکچھ کمیشن ہوتا ہےمثلاً 50 پرسنٹ یا 40 پرسنٹ، تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورتِ مسئولہ میں ڈاکٹر کا مریضوں کو لیبارٹری بھیجنے پر لیبارٹری والوں سے کمیشن لینا شرعاً درست نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کمیشن کامستحق ہوگا کیونکہ کوئی بھی شخص کمیشن کا اس وقت مستحق ہوتا ہے، جب وہ کوئی قابل معاوضہ کام کرے (یعنی اس کے لیے محنت کرے، بھاگ دوڑ کرے) جبکہ ڈاکٹر لیبارٹری والوں کےلیےکوئی قابل معاوضہ کام نہیں کرتا، محض مریض کو بیٹھے بیٹھے لیبارٹری کا پتہ بتا دینا یا مشورہ دے، دینا یہ کوئی قابل معاوضہ کام نہیں ہے، اس وجہ سے ڈاکٹر کا لیبارٹری والوں سے کمیشن لیناشرعاًدرست نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے
الدلالۃ و الاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الأجر۔۔۔ ان قال لرجل بعینہ ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل للمشی لاجلہ، لان ذٰلک عمل یستحق بعقد الاجارۃ
ترجمہ: محض بتانا اور اشارہ کرنا ایسا عمل نہیں ہے، جس پر وہ اجرت کا مستحق ہو۔ اگر کسی نے ایک معین شخص کو کہا اگر تو مجھے فلاں چیز پر رہنمائی کرے تو تیرے لیے اتنی اجرت ہوگی، اگر وہ شخص چلا، اس کی رہنمائی کی تو اس کے لیے اجرت مثل ہوگی اس کے لیے چلنے کی وجہ سے، کیونکہ چلنا ایسا عمل ہے جس پر عقد اجارہ میں اُجرت کا مستحق ہوتا ہے۔“ (فتاوی شامی، جلد 6، صفحہ 95، دار الفکر، بیروت)
اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کمیشن والے ایک مسئلہ کو یوں بیان فرماتے ہیں: ”اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی بائع کے لیے کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی طرف سے بھی کی ہوں مثلا آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز اچھی ہے خرید لینی چاہیے یا اس میں آپ کا نقصان نہیں، اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ،اس نے خرید لی، جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ اجرت آنے جانے محنت کرنے کی ہوتی ہے نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔“ (فتاوی رضویہ، ج 19، ص 453، رضا فاونڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4121
تاریخ اجراء: 20 صفر المظفر 1447ھ / 15 اگست 2025ء