ایپ سے کمائی کرنا کیسا ؟ LAM

LAM ایپ کے ذریعے چینل سبسکرائب اور ویڈیو لائک کرنے کی اجرت لینا کیسا؟

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

مصدق:مفتی محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر:Sar-9136

تاریخ اجراء:12 ربیع الثانی1446 ھ/ 16 اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ LAM نام کی  ایک ایپلیکشن (Application)ہے، جو انٹرنیٹ پر یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام وغیرہ سوشل میڈیا  چینلز اور پیجزکی پروموشن کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہے:

   (1) سب سے پہلے LAM نامی ایپلیکشن (Application) کو ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے،پھر اس میں اپنا ایک اکاؤنٹ بنایا جاتا ہےاور یہ اکاؤنٹ مفت (Free)بنتا ہے۔

   (2) اس کے مختلف پیکجز (Packages) ہوتے ہیں جو چار ہزار سے لے کر آٹھ لاکھ روپے تک ہوتے ہیں،نفع پیکج(package) کی مالیت کے اعتبار سے ہوتا ہے،جتنا مہنگا پیکج ہو گا، اتنا زیادہ نفع ہوگا، ان پیکجز میں سے کسی ایک پیکج کا خریدنا لازم ہے، وگرنہ آپ اس کےاجیر (employee)نہیں بن سکتے۔

    LAM Application (3) کی طرف سے پیکج کی مالیت کے مطابق اجیر employee کو روزانہ چینلز اور ویڈیوز کے لنک دیےجاتے ہیں،اجیر نے اس چینل کو سبسکرائب (Subscribe)کرنا اور اس کی ویڈیو کو دیکھ کر لائک کر کے اس کا سکرین شارٹ ایپ میں شوکر دینا ہے،پھر اس کے پیکج کے مطابق اسکی انکم جنریٹ (Generate) ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

   (4) LAM Application کو لوگوں میں عام کرنے اور زیادہ سے زیادہ افراد کو منسلک کرنے کے لئے نیٹ ورک مارکیٹنگ کا بھی آپشن موجود ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ  اجیر(employee)لنک کے ذریعہ نیا شخص اس ایپ میں ایڈ  کرتا ہے،اس کا کمیشن اجیر کو ملتا ہے، پھر یہ نیا شخص آگے کسی دوسرے شخص کو لنک کے ذریعہ اس ایپ میں ایڈ کرتا ہے، تو اس کا کمیشن پھر پہلے اجیر کو ملتا ہے،یونہی یہ سلسلہ آگے کئی افراد تک بڑھتا جاتا ہے،ہر شخص کو اس کی اجرت مکمل ملتی ہے اور اجیر کو کمیشن ملتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں ذکر کردہ  معلومات کے مطابقLAM Applicationکے ذریعہ آن لائن کام کرنا اور اس میں  اپنی رقم انویسٹ کرنا  بہت سے مفاسد  پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وگناہ ہے،جن میں سے دو بہت واضح ہیں۔

   (1)شریعت مطہرہ میں بیع(خریدوفروخت) مبادلۃ المال بالمال (یعنی  مال کے ساتھ مال کے تبادلے)کا نام ہے اور مال کا خارج میں وجود ہونا ضروری ہے،جبکہ LAM  کمپنی کسی بھی شخص کو اپنا اجیر (employee )بنانے  کے لئے جو  پیکچ(package) فروخت کرتی ہے، وہ  پیکج کوئی مادی وحسی چیز نہیں ہے کہ جس کا خارج میں کوئی وجود ہو اور اس کی قیمت لگائی جا سکے، بلکہ پیکج ایک غیر مادی و غیرحسی چیز ہے، جس کا خارج میں کوئی وجود نہیں، لہذا  پیکج کے  مال نہ ہونے کی وجہ سے  اس کی بیع (خرید و فروخت)شرعا باطل و ناجائز ہے۔

   (2)نیزاس کمپنی کےطریقۂ کارکےمطابق  پیکج خریدنے والے کومزیدآگے ممبر بنانے پرکمیشن دیا جاتا ہے اور جو اس سے اوپراس پرworkingکرنے والے لوگ ہیں درجہ بدرجہ تمام افرادکوعلیحدہ علیحدہ کمیشن ملتا ہے، خواہ یہ لوگ بھی اس نئے آنے والے ممبرپر محنت کریں یانہ کریں اورپھر اسی طرح یہ سلسلہ چل جاتا ہے۔ از روئے شریعت مطہرہ اس کمپنی میں اگر مذکورہ بالا ناجائز وجوہات نہ بھی ہوتیں، تو تب بھی اس کے ناجائز ہونے کے لئے فقط اتنا ہی کافی تھا کہ کمپنی کے کمیشن دینے کامذکورہ طریقۂ کار ضوابطِ فقہیہ اور قانونِ اجارہ کے خلاف ہے۔

   قوانینِ فقہ کی روشنی میں ایک مزدوریاکسی کے لئے کام کرنے والے کی اجرت بلاشبہ پوری پوری دی جائے گی، لیکن وہ کام جواس نے نہیں کیا، بلکہ کسی اورنے کیاہے اس کا وہ مستحق نہیں اور اس رقم کا وہ تقاضا بھی نہیں کرسکتا، کیونکہ کمپنی کے کام میں کمیشن کا حصول بطورِ دلال (commission agent) کے ہوتاہے اور دلال کے لئے ضروری ہے کہ اس نے عُرف کے مطابق کام بھی کیا ہو، تواس سلسلے میں کمپنی کی طرف سے سب سے پہلے شخص کو جو پہلی دفعہ ممبر بنانے پر کمیشن مل رہا ہے، وہ تو از روئے قیاس شرعاً درست ہے (جبکہ وہ بھی دیگراحکامِ شرع کی روشنی میں درست ہو)، لیکن مزید آگے ان نئے ممبروں کی مدد سے جو گاہک اور ممبر بنیں گے اور ان ممبروں سے جومزیدآگے ممبر بنیں گے ان کی محنت پراصل محنت کرنے والوں کے علاوہ اوپروالوں کو جتنا بھی کمیشن ملے گا، وہ کمیشن لیناجائز نہیں ہے، اس لئے کہ کمیشن اور دلالی کا مدار مشقتِ عمل پر ہے اوروہ یہاں موجودنہیں ہے۔

بالتریب جزئیات :

   (1) بیع کی تعریف سے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے: ”اما تعریفہ فمبادلۃ المال بالمال بالتراضی“ ترجمہ: بہر حال بیع کی تعریف  یہ ہے کہ مال کا مال کے ساتھ رضامندی سے تبادلہ کرنا۔(الفتاوی الھندیہ، جلد 3، صفحہ 2، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   مال کی تعریف کے متعلق منحۃ الخالق میں ہے: ”المال ما يميل إليه الطبع ويدخر لوقت الحاجة“ ترجمہ: مال اسے کہتے ہیں کہ جس کی طرف طبیعت مائل ہو اور ضرورت کے لئے ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہو۔(منحۃ الخالق، ج 5، ص 277، مطبوعہ دار الکتاب  الاسلامی، بیروت)

   مال کے وجود کے متعلق ردالمحتار میں ہے: ”فالأولى ما في الدرر من قوله المال موجود يميل إليه الطبع إلخ فإنه يخرج بالموجود المنفعة“ ترجمہ: مال کی بہترین تعریف وہ ہے جو درر میں مصنف کے قول  کہ مال وہ ہے جس کا خارج میں وجود ہواور اس کی طرف طبعیت مائل ہو،پس موجود کی قید سے منفعت مال کی تعریف سے نکل گئی۔(رد المحتار، ج 05، ص 50، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

   غیر مال کی بیع کے باطل ہونے کے متعلق تنویر الابصار میں ہے: ”بطل بیع ما لیس بمال“ ترجمہ: جو چیز مال نہیں اس کی بیع باطل ہے۔(تنویر الابصار، ج 05، ص 50، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   محیط برہانی میں ہے: لأنه حق لا يجوز الاعتياض عنه ولهذا لا يجوز بيعهترجمہ: اس لئے کہ یہ حق ہے جس کا عوض لینا جائز نہیں اور اسی وجہ سے اس کی بیع جائز نہیں۔(محیط برھانی، ج 07، ص 390، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   الاشباہ والنظائر میں ہے ”الحقوق المجردة لا يجوز الاعتياض عنها.كحق الشفعة“ ترجمہ: حقوق مجردہ کا عوض لینا جائز نہیں، جیسے حقِ شفعہ کا عوض لینا جائز نہیں۔(الاشباہ و النظائر، ج 01، ص 178، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   (2) کمیشن ایجنٹ کے قابل معاوضہ کام کرنے پر اجرت کے مستحق ہونے کے متعلق    رد المحتار میں ہے: ”والأجرة إنما تكون في مقابلة العمل والسكوت ليس بعمل“ ترجمہ: اجرت عمل کے مقابلہ میں ہی ہوگی اور سکوت عمل نہیں ہے۔(رد المحتار علی در مختار، کتاب النکاح، جلد 3، صفحہ 156، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

   بغیر عمل کے اجرت درست نہ ہونے کے متعلق  ہدایہ میں ہے :”فلو جوزناه لكان استحقاقا بغير عمل ولم يرد به الشرع“ترجمہ:اگر ہم نے اس عقد کو جائز قرار دیا،  تو یہ بغیر عمل کے اجرت کا حقدار بننا ہوگا ،جبکہ  اس پر شرع وارد ہی نہیں ہوئی (کہ بغیر عمل اجرت کا حق ثابت ہو)۔(ھدایہ، کتاب المساقاہ، جلد 4، صفحہ 344، مطبوعہ داراحیاء التراث بیروت)

   امام اہلسنت احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں: ”اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 453، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم