
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
مدینہ پاک کی حاضری یا درِ مرشد جانے کے لیے کسی سے سوال کرنا کہ آپ میرے اخراجات کریں، جائز ہے یا نہیں؟ کیا دینے والا اس صورت میں گنہگار ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جس شخص کے پاس اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کی استطاعت ہو خواہ اس طرح کہ اس کے پاس اس قدر مال موجود ہے یا اس طرح کہ محنت کر کے کما سکتا ہے، تو ایسے شخص کو اپنی ذات کے لیے کسی سے سوال کرنا جائز نہیں اور جس شخص کو اس کی یہ حالت معلوم ہو، اس شخص کے لیے اس کو دینا بھی جائز نہیں کہ یہ گناہ پر معاونت ہے، جو کہ سخت گناہ کا کام ہے، البتہ ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کی استطاعت نہ ہو، تو بقدرِ ضرورت سوال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن مدینۂ طیبہ یا درِ مرشد کی حاضری باوجود ہزار نعمت و سعادت ہونے کے، ایسا کام نہیں ہے کہ جس کے لئے سوال کرنا جائز ہو، لہذا ان مقاصدکے لیے اپنی ذات کے لیے سوال کرنا، جائزنہیں۔
جو شخص اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، ایسے شخص کواپنی ذات کے لیے کسی سے سوال کرنا جائز نہیں، چنانچہ امام اہلسنت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ’’جو اپنی ضروریات شرعیہ کے لائق مال رکھتا ہے یا اس کے کسب پر قادر ہے،اُسےسوال حرام ہے اور جو اس مال سے آگاہ ہو،اُسے دینا حرام اور لینے اور دینے والا دونوں گنہ گار و مبتلائے آثام۔ صحاح میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں:
”لاتحل الصدقۃ لغنی و لذی مرۃ سوی‘‘
ترجمہ: کسی مالدار اور طاقتور تندرست شخص کے لیے صدقہ حلال نہیں۔" (فتاوی رضویہ، ج 10، ص 307، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بلا ضرورتِ شرعی سوال کرنا سخت گناہ ہے اور ایسے کو دینا اس گناہ پر معاونت کرنا ہے، جبکہ گناہ پرمدد کرنے کی ممانعت کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتاہے
﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾
ترجمہ کنز الایمان: اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔ (پارہ 6، سورۃ المائدۃ، آیت 2)
بلاضرورتِ شرعی سوال کرنے والے کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
’’ما یزال الرجل یسال الناس حتی یاتی یوم القیامۃ لیس فی وجھہ مزعۃ لحم‘‘
ترجمہ: آدمی ہمیشہ لوگوں سے سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکڑا نہیں ہوگا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث 1474، ج 2، ص 123، دار طوق النجاۃ)
اسی بارے میں مزید حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”من سأل الناس اموالھم تکثرا، فانما یسأل جمر جھنم، فلیستقل منہ او لیکثر‘‘
ترجمہ: جو اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے ان کے مال کا سوال کرے، تو وہ جہنم کے انگارے کا سوال کرتا ہے، اب چاہے، تو کم مانگے یا زیادہ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث 1838، ج 1، ص 589، دار إحياء الكتب العربية)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3237
تاریخ اجراء: 22 ربیع الثانی 1446 ھ / 26 اکتوبر2024 ء