
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ مرد چاندی کی انگوٹھی کتنے وزن کی پہن سکتا ہے؟ نیز چاندی کی انگوٹھی میں ڈائمنڈ کا نگ پہننا مرد کے لیے جائز ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مرد کے لیے چاندی کی ساڑھے چار ماشے سے کم، ایک نگینے والی، ایک انگوٹھی، جس میں کسی بھی قسم کے کسی پتھر یا ڈائمنڈ، یا چاندی ہی کا نگینہ ہو، اس کا پہننا جائز ہے، مگر بے ضرورت اس کا ترک افضل ہے، اگر چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی ہو یا اس کا وزن ساڑھے چار ماشے یا اس سے زیادہ ہو یا ایک سے زیادہ نگینے ہوں یاوہ صرف چھلا ہویا ایک سے زیادہ چاندی کی انگوٹھیاں ہوں، اگرچہ سب مل کر وزن میں ساڑھے چار ماشے سے کم ہوں، تو یہ پہننا مرد کے لیے جائز نہیں، بلکہ گناہ ہے اور جو شخص اس میں مبتلا ہے، یعنی بطور عادت کے پہنتا ہے، و ہ فاسق معلن ہے، ایسے کو امام بناناممنوع اوراس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ، یعنی نمازپڑھنا گناہ اور لوٹانا واجب ہے۔
امام ابو داؤد السجستانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
إن رجلاً جاء إلی النبی صلی اللہ علیہ و سلم و علیہ خاتم من شبہ، فقال لہ مالی أجد منک ریح الأصنام؟ فطرحہ ثم جاء و علیہ خاتم من حدید، فقال مالی أری علیک حلیۃ أھل النار؟ فطرحہ، فقال: یا رسول اللہ! من أی شیء أتخذہ؟ قال إتخذہ من ورق و لا تتمہ مثقالا
ایک شخص نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا، تو وہ پیتل کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا، نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا بات ہے کہ تم سے مجھے بت کی بو آتی ہے؟ انھوں نے وہ انگوٹھی پھینک دی، پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آئے، تو نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تم پر جہنمیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں؟ اس شخص نے اسے بھی پھینک دیا اور عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کس جیز کی انگوٹھی میں پہنوں؟ فرمایا: چاندی کی اور ایک مثقال پورانہ کرو، یعنی ساٹھے چار ماشہ سے کم کی ہو۔ (سنن ابو داود، ج 2، ص 228، مکتبہ رحمانیہ، لاھور)
درمختار میں ہے۔
(و لا یختم) إلا با لفضۃ لحصول الإستغناء بھا فیحرم (بغیرھا)
مرد چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ کوئی نہ پہنے، چاندی کی انگوٹھی کی وجہ سے استغنا حاصل ہو جاتا ہے، چاندی کے علاوہ دیگر کسی دھات کی بنی ہوئی انگوٹھی پہننا حرام ہیں۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 9، ص 593، مطبوعہ پشاور)
اسی میں ایک اور مقام پر ہے:
(و العبرۃ بالحلقۃ) من الفضۃ (لا بالفص) فیجوز من حجر و عقیق و یاقوت و غیرھا
یعنی انگوٹھی چاندی کی ہونے میں اعتبار حلقے یعنی دائرے کا ہے، اس میں نگینے کا اعتبار نہیں ہے، اس لیے نگینہ چاہے پتھر، عقیق، یاقوت وغیرہ کا ہو، وہ بھی جائز ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 9، ص 595، مطبوعہ پشاور)
اسی میں ایک اور مقام پر ہے:
(و ترک التختم لغیر السلطان و القاضی) و ذی حاجۃ إلیہ کمتول (أفضل)
سلطان، قاضی اور ہر ذی حاجت مثلاً متولی وغیرہ کے علاوہ باقی لوگوں کے لیے انگوٹھی نہ پہننا افضل ہے۔
اس عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے:
و ظاھر کلامھم أنہ لا خصوصیۃ لھما، أی: للسلطان و القاضی، بل الحکم فی کل ذی حاجۃ کذٰلک، فلو قیل و ترکہ لغیر ذی حاجۃ إلیہ أفضل، لیدخل فیہ المباشر و متولی الأوقاف و غیرھما ممن یحتاج إلی الختم لضبط المال کان أعم فائدۃ کما لا یخفی اھ
فقہاء کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ سلطان اور قاضی کے لیے ہی یہ خصوصیت نہیں ہے، بلکہ ہر ذی حاجت کے لیے یہی حکم ہے، لہذا اگر یہ کہا جائے کہ ہر ذی حاجت کے غیر کے لیے انگوٹھی کا ترک افضل ہے، تا کہ اس میں ہر مبتلا، وقف کے متولی اور ان کے علاوہ جن جن کو بھی مال اور رقم وغیرہ کی حفاظت کے لیے مہر کی ضرورت پڑتی ہے، سب شامل ہو جائے، تو اس کا فائدہ عام ہو جائے گا، جیسا کہ کسی پر بھی مخفی نہیں ہے اھ۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 9، ص 597، مطبوعہ پشاور)
علامہ شامی علیہ رحمۃ اللہ القوی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
إنما یجوز التختم بالفضۃ لو علی ھیئۃ خاتم الرجال، أما لو لہ فصان أو أکثر حرم، قھستانی
چاندی کی انگوٹھی اگر مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو تو اس کا پہننا مرد کے لیے جائز ہے، لیکن اگر اس میں دو یا اس سے زیادہ نگینے ہوں تو مرد کے لیے پہننا حرام ہے، قہستانی۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 9، ص 597، مطوعبہ پشاور)
سیدی اعلیٰ حضرت، مجدد دین و ملت، امام اہل سنت، امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ’’چاندی کی ایک انگوٹھی، ایک نگ کی، ساڑھے چار ماشہ سے کم وزن کی مرد کو پہننا جائز ہے اور دو انگوٹھیاں یا کئی نگ کی ایک انگوٹھی یا ساڑھے چار ماشہ، خواہ زائد، چاندی کی اور سونے، کانسے، پیتل، تانبے کی مطلقا ناجائز ہیں۔‘‘ (احکام شریعت، ص 180، ممتاز اکیڈیمی، لاھور)
سیدی اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن خلاف حکم شریعت مطہرہ ایک انگوٹھی کئی نگ والی یا ایک سے زیادہ انگوٹھیاں پہننے والے شخص کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: ”ایک آدھ بار پہننا گناہ صغیرہ اور اگر پہنی اور اتار ڈالی تو اس کے پیچھے نماز میں حرج نہیں اور اگر نماز میں پہنے ہو تو اسے امام بنانا ممنوع اور اس کے پیچھے نماز مکروہ، یوں ہی جو پہنا کرتا ہے، اُس کا عادی ہے، فاسق معلن ہے اور اس کا امام بنانا گناہ، اگر اس وقت نماز میں نہ بھی پہنے ہو۔“ (فتاوی رضویہ ج 6، ص 601، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی امجد علیہ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: انگوٹھی وہی جائز ہے، جو مردوں کی انگوٹھی کی طرح ہو، یعنی ایک نگینہ کی ہو اور اگر اس میں کئی نگینے ہوں، تو اگرچہ وہ چاندی ہی کی ہو، مرد کے لیے ناجائز ہے۔ اسی طرح مردوں کے لیے ایک سے زیادہ انگوٹھی پہننا یا چھلے پہننا بھی ناجائز ہے کہ یہ انگوٹھی نہیں عورتیں چھلے پہن سکتی ہیں۔ (بھار شریعت ج 3، ح 16، ص 427، 428، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ”انگوٹھی سے مراد حلقہ ہے، نگینہ نہیں، نگینہ ہر قسم کے پتھر کا ہوسکتا ہے، عقیق یاقوت، زمرد، فیروزہ، وغیرہ سب کا نگینہ جائز ہے۔“ (بھار شریعت ج 3، ح 16، ص 426، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: محمد نوید چشتی عفی عنہ
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-7489
تاریخ اجراء: 03 صفر المظفر 1446ھ / 09 اگست 2024ء