
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
اکثر اوقات بڑے افسر جب کھانا کھاتے ہیں، تو پلیٹ میں کچھ کھانا بچ جاتا ہے جبکہ ہم بھی اپنا کھانا کھا چکے ہوتے ہیں ۔ایسی صورت حال میں اس کھانے کا کیا کرنا چاہیے ؟کیا اس کو پھینک سکتے ہیں ؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اس کھانے کو بلاوجہ پھینکنے کی ہر گز اجازت نہیں ہے کہ یہ مال کو بلاوجہ ضائع کرنا ہےاور مال کوبلاوجہ ضائع کرنا ، ممنوع وناجائزوگناہ ہے۔لہذا اس کے لیے کوئی ایسا بندوبست کیا جائے کہ جس سے وہ کھانا ضائع نہ ہو مثلاً آفس کے یاباہرکے کسی غریب فردکو دے دیا جائے یا سیکورٹی گارڈ وغیرہ کو دے دیا جائے اورکسی طرح کی صورت نہ بنے توکم ازکم حتی الامکان جانوروں اور پرندوں وغیرہ کو ڈال دیا جائے ۔
قرآن مجید میں ہے :
﴿وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا(۲۶) اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْا اِخْوَانَ الشَّيٰطِيْنِ ﴾
ترجمہ کنزالایمان : اور فضول نہ اڑا۔ بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں۔(پارہ 15،سورہ بنی اسرائیل،آیات:26،27)
صحیح مسلم میں حدیث پاک ہےکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" إن الله كره لكم ثلاثا: قيل وقال، وإضاعة المال، وكثرة السؤال "
ترجمہ:بیشک اﷲ تعالٰی تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند فرماتا ہے: قیل وقال، مال ضائع کرنا اور کثرت سے سوال کرنا۔ (صحیح مسلم،رقم الحدیث 593،ج 3،ص 1341، دار إحياء التراث العربي ، بيروت)
فتاوی رضویہ میں ہے "اسراف بلاشبہ ممنوع وناجائزہے۔" (فتاوی رضویہ، ج 01، حصہ دوم، ص 926، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اسراف کی وضاحت کرتے ہوئے فتاوی رضویہ میں فرمایا: "بالجملہ احاطہء کلمات سے روشن ہوا کہ وہ قطب جن پر ممانعت کے افلاک دورہ کرتے ہیں دوہیں ایک مقصدمعصیت دوسرابیکاراضاعت،اورحکم دونوں کامنع و کراہت۔"
اس کے تحت حاشیہ میں ہے "مسئلہ: اسراف کہ ناجائزوگناہ ہے صرف دوصورتوں میں ہوتاہے ،ایک یہ کہ کسی گناہ میں صرف واستعمال کریں دوسرے بیکارمحض مال ضائع کریں۔" (فتاوی رضویہ، ج 01، حصہ دوم، ص 940، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3870
تاریخ اجراء:28ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/26مئی2025ء