
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتےہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک جگہ قدیم وقف قبرستان ہے۔ جو قبور(قبروں) سےمکمل بھر چکا ہے۔ کیا اس قبرستان میں تمام قبور پر پانچ، چھ فٹ مٹی ڈال کر اس پر نئی قبریں بناسکتے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
صورت مسئولہ میں قبورِ مسلمین پر پانچ، چھ فٹ مٹی ڈال کر اس پر جدید قبور بنانا، ناجائز و حرام ہے کہ یہ قبور مسلمین کی سخت بے حرمتی اوران کے لیے تکلیف کا باعث ہے، کہ جس بات سے زندوں کو ایذا پہنچتی ہے مُردے بھی اس سے تکلیف پاتے ہیں۔ جب قبر پر چلنا، پاؤں رکھنا، اس پربیٹھنا، اس پر راستہ بنانا، جائز نہیں، تواس پر مستقل مکمل قبر بنانا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ اس میں مزید کئی خرابیاں بھی ہیں کہ مٹی ڈالنے کے لیے اس پر ٹریکٹر، ٹرالی یا دیگرباربرداری والی گاڑیوں یا پیدل اٹھاکر مٹی ڈالنا ہوگی، اوپر نئی قبریں کھودتے ہوئے، جنازہ لاتے ہوئے ظن غالب ہے کہ قبور پر چلنا، پھرنا راستہ بنانا وغیرہ پایا جائے اور شرعا یہ افعال سخت حرام ہیں کہ اس میں مردوں کی توہین اور ایذا ہے۔
قبر پر بیٹھنے کےحوالے سےمسلم، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ کی حدیث پاک میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
لأن یجلس أحدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ، فتخلص إلی جلدہ، خیرلہ من أن یجلس علی قبر
یعنی: تم میں سے کوئی آگ کی چنگاری پر بیٹھے یہاں تک کہ وہ اس کے کپڑے جلا کر جلد تک پہنچ جائے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔ (صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 667، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
مسلمان کی قبر پر چلنے کے بارے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم فرماتے ہیں:
لان امشی علی جمرۃ اوسیف احب الی من ان امشی علی القبر
یعنی میں انگارے یا تلوار پر چلوں یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں (کسی مسلمان کی ) قبر پر چلوں۔ (سنن ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ 499، دار إحياء الكتب العربية)
الاختيار لتعليل المختار میں ہے:
(و يكره وطء القبر و الجلوس و النوم عليه) لأنه عليه الصلاة و السلام نهى عن ذلك، وفيه إهانة به
یعنی: قبر پر پاؤں رکھنا، اس پر بیٹھنا اور سونا مکروہ ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا اور اس میں اس کی اہانت ہے۔ (الاختيار لتعليل المختار، باب الجنائز، جلد 1، صفحہ 97، طبعة الحلبي، القاهرة)
شیخ الاسلام و المسلمین، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”جب حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبر پر بیٹھنے اور اس سے تکیہ لگانے اور مقابر میں جوتا پہن کر چلنے والوں کو منع فرمایا اور علماء نے اس خیال سے کہ قبور پر پاؤں نہ پڑے، گورستان میں جو راستہ جدید نکالا گیا ہو، اس میں چلنے کو حرام بتایا اور حکم دیا کہ قبر پر پاؤں نہ رکھیں، بلکہ اس کے پاس نہ سوئیں، سنت یہ ہے کہ زیارت میں بھی وہاں نہ بیٹھیں، بلکہ بہتریہ ہے کہ بلحاظِ ادب پاس بھی نہ جائیں، دور ہی سے زیارت کرآئیں۔ اور تصریح فرمائی کہ مسلمان زندہ و مردہ کی عزت برابر ہے اور جس بات سے زندوں کو ایذا پہنچتی ہے مُردے بھی اس سے تکلیف پاتے ہیں اور انہیں تکلیف دینا حرام، تو خود ظاہر ہوا کہ یہ فعل مذکور فی السوال کس قدر بے ادبی و گستاخی وباعث گناہ اور استحقاق عذاب ہے۔ جب مکان سکونت بنایا گیا تو چلنا پھرنا، بیٹھنا لیٹنا، قبور کو پاؤں سے روندنا، ان پر پاخانہ، پیشاب ، جماع سب ہی کچھ ہوگا اور کوئی دقیقہ بے حیائی اور اموات مسلمین کی ایذا رسانی کا باقی نہ رہے گا۔‘‘ (فتاوٰی رضویہ، جلد 9، صفحہ 453، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ’’قبور مسلمین پر چلنا جائز نہیں، بیٹھنا جائز نہیں، ان پر پاؤں رکھنا جائز نہیں، یہاں تک کہ ائمہ نے تصریح فرمائی کہ قبرستان میں نیا راستہ پیدا ہو اس میں چلنا حرام ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 480، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
فتاوی رضویہ شریف میں قبروں کے مسمار کرکے مسجد بنانے کے حوالے سے امام اہلسنت اعلیٰ حضرت الشاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن تحریر فرماتے ہیں: ”یہ حرکت شنیعہ ہمارے ائمہ کے اجماع سے ناجائز و حرام ہے۔ توہین قبور مسلمین ایک اور قبور پر نماز کا حرام ہونا دو۔ کہاں قبر کی بلندی کہ حدِ شرعی سے زائد ہو اس کے دور کرنے کا حکم اور کہاں یہ کہ قبور مسلمین مسمار کر کے ان پر چلیں، اموات کو ایذا دیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 428، رضا فاونڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی
مصدق: مفتی محمد ہاشم خان عطاری
فتویٰ نمبر: Lar-10242
تاریخ اجراء: 20 ربیع الاخر 1442ھ / 06 دسمبر 2020ء