رسول اللہ ﷺ کو خدا کا دلبر یا خدا کا دلربا کہنا کیسا؟

حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو خدا کا دلبر یا خدا کا دلربا کہنا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کسی بزرگ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ”خدا کا معشوق“، ”خدا کا دلبر“، یا ”خدا کا دلربا“ نثر یا نظم میں کہنا کیسا ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(1) کسی بزرگ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کا معشوق کہنا جائز نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کسی کو ”خدا کا معشوق“           کہنا دراصل اس بات کا مفہوم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عاشق ہے اور معنی عشق اللہ تعالی کے حق میں محال ہے، اس لیے اسے عاشق کہنا یا خدا نے عشق کیا وغیرہا کہنا ممنوع و ناجائز ہے۔ (2) کسی کو خدا کا دلبر اور خدا کا دلربا کہنا بھی جائز نہیں کیونکہ ”دلبر اور دلرُبا“ کے لغت میں چند معانی ہیں: (1) محبوب، پیارا (2) معشوق (3) دل لے لینے والا، دل لبھانے والا۔ ان میں پہلا معنیٰ تو درست ہے لیکن اصول یہ ہے کہ وہ لفظ جس کے بعض معانی اچھے اور بعض معانی بُرے ہوں اور شریعت میں اللہ تعالی کے لیے اس لفظ کا استعمال ثابت نہ ہو، تو ایسا لفظ اللہ تعالی کے لئے استعمال کرنا ممنوع ہوتا ہے۔ اس تناظر میں لفظِ ”دلبر اور دلرُبا“ کو دیکھا جائے تو دوسرے دو معانی (معشوق اور دل لے جانے والا، دل لبھانے والا) کے اعتبار سے اس کا استعمال رب ذوالجلال کے لئے درست نہیں، تو یوں اس کے کچھ معنی درست ہوئے اور کچھ باری تعالی کے حق میں محال، اور یہ لفظ شرع میں وارد بھی نہیں، تو اس کا استعمال ذات باری تعالی کے لئے ممنوع قرار پائے گا، یعنی کسی بزرگ یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا ”دلبر اور دلرُبا“          کہنا منع ہوگا، اس کی اجازت نہیں ہوگی۔

اللہ عزوجل کی ذات کے لئے لفظِ عاشق کا اطلاق شرعاً جائز نہیں، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ اللہ تعالٰی کو عاشق اور حضور پرنور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو معشوق کہنا جائز ہے یانہیں؟

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ”ناجائز ہے کہ معنی عشق، اللہ عزوجل کے حق میں محالِ قطعی ہے، اور ایسا لفظ بے ورودِ ثبوتِ شرعی، حضرت عزت کی شان میں بولنا ممنوع قطعی۔ ردالمحتارمیں ہے: مجرد ایھام المعنی المحال کافٍ فی المنع۔ )محال معنی کا صرف وہم ہی ممانعت کے لئے کافی ہے۔)“(فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ114، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

دلبر کے معنی نور اللغات میں ہے ” معشوق۔ محبوب۔ پیارا۔“ (نوراللغات، جلد2، صفحہ718، مطبوعہ: لکھنؤ)

دلرباکے معنی نور اللغات میں ہے ”مطبوع خاطر۔ معشوق۔ دلبر۔ دل لبھانے والا“         (نوراللغات، جلد2، صفحہ728، مطبوعہ: لکھنؤ)

دلبر کے معنیٰ فیروز اللغات میں ہیں ”دل لے لینے والا۔ محبوب۔ معشوق“۔ اسی میں دلربا کا معنی ہے ”دل لبھانے والا۔ دلبر۔ معشوق۔“ (فیروز اللغات، صفحہ671، 674، فیروز سنز، لاہور)

دل رُبا کے معنی سے متعلق فرہنگ آصفیہ میں ہے ”دلبر۔ معشوق۔ دل لے جانے والا۔“  (فرہنگ آصفیہ، جلد2، صفحہ805، مطبوعہ: لاہور)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دل بر اور دل رُبا کہنے کے متعلق فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی شارح بخاری میں تحریر فرماتے ہیں: ”امتی اپنے اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دل بر، دل رُبا، معشوق کہہ سکتا ہے۔ عرف عام میں ان تینوں کے معنی محبوب کے ہیں۔ مگر اللہ تعالی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں۔ یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے دل بر، دل ربا، معشوق ہیں۔ اس لیے کہ دل بر، دل ربا کہنے میں باری تعالیٰ کے لیے ایہام تجسم ہے اور معشوق کہنے میں اثبات نقص۔ کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے۔(فتاوی شارح بخاری ، جلد 1، صفحہ281، دائرۃ البرکات، گھوسی)

ملفوظات اعلی حضرت میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال  ہوا کہ حضور! ”اللہ میاں“         کہنا جائز ہے یا نہیں؟ جواباً ارشادفرمایا: ”زبانِ اُردو میں لفظِ میاں کے تین معنی ہیں، ان میں سے دو ایسے ہیں جن سے شانِ اُلُوہیت پاک ومنزہ ہے اور ایک کا صِدق(اطلاق) ہوسکتا ہے۔ تو جب لفظ دو خبیث معنوں میں اور ایک اچھے معنی میں مشترک ٹھہرا، اور شرع میں وارِد نہیں تو ذاتِ باری پر اس کا اِطلاق ممنوع ہوگا۔ اس کے ایک معنی مولیٰ، اللہ تعالیٰ بے شک مولیٰ ہے، دوسرے معنی شوہر، تیسرے معنی زنا کا دلال کہ زانی اور زانیہ میں متوسط ہو۔“ (ملفوظات اعلی حضرت، صفحہ174، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4368

تاریخ اجراء: 29ربیع الثانی1447 ھ/23اکتوبر2025 ء