سر یا داڑھی کے سفید بال اکھیڑنا

سر یا داڑھی کے سفید بالوں کو اکھیڑنا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ سر یا داڑھی میں موجود سفید بالوں کو اکھیڑ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سفید بال عمر، وقار اور شریعت میں فضیلت کی علامت ہیں، عموماً یہ بڑھاپے کی نشانی ہوتے ہیں، جسے انسان عموماً ناپسند کرتا ہے،کیونکہ طبعی طور پر انسان ہمیشہ جوان اور خوبصورت نظر  آنے کی تمنا کرتا ہے، اسی کے پیش نظر سر یا داڑھی میں ظاہر ہونے والے سفید  بالوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی  ہے، شریعت مطہرہ نے  اِس حوالے سے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ سفید بالوں کو باقی رکھنا، مسلمانوں کا نور ہے اور اِن بالوں کی وجہ سے  نیکیاں ملتی ہیں اور گناہ معاف ہوتے ہیں۔

اِس تمہیدی گفتگو کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ سر اور داڑھی میں موجود سفید بالوں کو محض بڑھاپا چھپانے، خوبصورت اور جوان نظر آنے کے لیے نوچنا یا کاٹنا، مکروہ و ممنوع اور خلاف ِاَولیٰ ہے، البتہ اگر زیب و زینت مقصود نہ ہو، بلکہ مجاہد، دشمن پر رعب طاری کرنے کے  لیے سفید بال اکھیڑے ، تو اِس میں شرعا ًکوئی حرج نہیں۔

سفید بالوں کی فضیلت کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لا تنتفوا الشيب، ما من مسلم يشيب شيبة في الإسلام إلا كتب اللہ بها حسنة وحط بها عنه خطيئة

 ترجمہ : ’’سفید بالوں کو نہ اکھیڑو، کیونکہ بڑھاپا ( بالوں کا سفید ہوجانا) مسلمان کے لیے نور ہے اور جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف بڑھتا ہے، تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے لیے  ایک نیکی لکھ دیتا ہے اور اِس کا ایک گناہ مٹادیتا ہے۔(سنن ابوداؤد، جلد 4، صفحہ 136، مطبوعہ الأنصارية، دهلي)                         

سفيد بال اکھیڑنے کی ممانعت کے متعلق سنن ابن ماجہ میں ہے  :

 نهى رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عن نتف الشيب وقال هو نور المؤمن

ترجمہ :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید بال اکھیڑنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ یہ مومن کا  نور ہیں۔

اس حديث كے تحت حاشیہ سندی میں ہے :

”فلا ينبغي أن يزيله بخلاف الخضاب فإنه ستر له لا إزالة فهو جائز“

 ترجمہ :یہ مناسب نہیں کہ کوئی شخص سفید بالوں کو زائل  کرے، برخلاف سفید بالوں میں مہندی لگانے کےکہ اس میں سفید بالوں کو چھپانا ہے، ختم کرنا نہیں اور یہ جائز ہے۔ (حاشیۃ السندی علی سنن ابن ماجہ، جلد2، صفحہ 403، مطبوعہ دار الجيل، بيروت)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داڑھی میں موجود سفید بالوں کے اکھیڑنے  سے حجام  کو روکا، جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے :

عن طلق بن حبيب: أن حجاما أخذ من شارب النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فرأى شيبة في لحيته، فأهوى إليها، فأخذ النبي صلی اللہ علیہ وسلم بيده، وقال: «من شاب شيبة في الإسلام كانت له نورا يوم القيامة

 ترجمہ : حضرت طلق بن حبيب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک حجام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مونچھوں کو تراشا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی میں ایک سفید بال دیکھا، تو اس کو کاٹنا چاہا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور ارشاد فرمایا :’’جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو، تو قیامت کے دن اُس کے لیے ایک نور ہو گا۔‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد  5، صفحہ 266، مطبوعہ دار التاج، لبنان)

سفید با ل اکھیڑنے  کی کراہت کے متعلق حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

”یکرہ ان ینتف الرجل الشعرۃ البیضاء من راسہ و لحیتہ‘‘

 ترجمہ : مرد کا اپنی داڑھی اور سر کے سفید بالوں کو اکھیڑنا، مکروہ ہے۔“(صحیح المسلم، جلد 4، صفحہ 1821، مطبوعه دار إحياء التراث العربي، بيروت)

  مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

”قال بعض العلماء: لا يكره نتف الشيب إلا على وجه التزين“

 ترجمہ:بعض علماء نے ارشاد فرمایا: سفید بال اکھیڑنا تبھی مکروہ ہو گا جبکہ خوبصورتی اور زینت کے لیے  کرے۔ (مرقاۃ المفاتیح، جلد7، صفحہ 2830، مطبوعہ  دار الفکر، بیروت)

مرآۃ  المناجیح میں ہے :”یعنی جب سر یا داڑھی  میں چٹے بال شروع ہوجاویں تو انہیں مت اکھیڑو ان چٹے بالوں سے نفس کمزور ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اب میں بوڑھا ہو چلا ہوں آخرت کی تیاری کروں، یہ بال اکھیڑ دینے سے وہ اپنے کو جوان ہی سمجھے گا، یہ فرق ہے خضاب اور سفید بال اکھیڑنے میں اس لیے خضاب کا حکم دیا اکھیڑنے سے منع فرمایا، سفید بال خواہ سفید ہی رہیں یا سرخ کردیئے جاویں قبر یاد دلاتے ہیں کہ تیاری کرو چلنے کا وقت قریب آگیا سویرا ہوگیا اب جاگ جاؤ۔۔۔علماء فرماتے ہیں کہ سفید بال اکھیڑنا زینت کے لیے ہو تو منع ہے۔‘‘ (مراۃ المناجیح ،جلد6 ،صفحہ 157،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

زینت کی غرض سے سفید  بال نوچنا مکروہ ہے، جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:

”نتف الشيب مكروه للتزيين لا لترھیب العدو“

 ترجمہ:خوبصورتی اور زینت کے لئے سفید بال اکھاڑنا مکروہ ہے، لیکن دشمن کے دل میں رُعب پیدا کرنے کے لئے ایسا کرنا مکروہ نہیں ۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد5، صفحہ359، دارالفکر، بیروت)

علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں :

ولا بأس بنتف الشيب“

ترجمہ: سفید بال اکھاڑنے میں کوئی حرج نہیں۔

سفید بالوں کو باقی  رکھنااولیٰ ہے، چنانچہ در مختار  کی درج بالا عبارت کے تحت علامہ طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

”الظاهر حمله على القليل، والتعبير بلا بأس يفيد أن الأولى تركه لما إنه نور المسلم يوم القيامة»كما ورد“

 ترجمہ : ظاہر یہی ہے کہ مذکورہ بالا حکم شرعی تھوڑے بالوں کے اتارنے پر محمول ہے، حکم شرعی کو ”لا باس“ سے تعبیر کرنا، اس بات کا فائدہ دیتا ہے کہ سفید بالوں کو چھوڑنا، اولیٰ ہے،کیونکہ یہ قیامت والے دن نور ہوں گے، جیساکہ حدیث میں بھی وارد ہوا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی، علی الدر المختار، جلد 11، صفحہ 196، مطبوعہ بیروت)

یاد رہے کہ سفید بال نوچنے کا مسئلہ کتب فقہ میں  ”لا بأس“ کے ساتھ بیان ہوا ہے  اور یہ جواز ثابت کرتا ہے، مگر یہ جائز ہونا ”خلافِ اَولی“ کی حیثیت سے ہے، اگرچہ ”لا بأس“ سے جواز ثابت ہوتاہے، مگر اِس کا غیر بہتر ہے، لہذا اس لفظ کا یہی تقاضا ہے کہ سفید بالوں کو نہ اکھیڑنا ہی بہتر ہے، چنانچہ اس اصول کے متعلق ’’فاکھۃ البستان‘‘ میں ہے:

”فإن لفظ ”لا بأس“  يدل على أن الأولى غيره،  فتدبر“

ترجمہ: ”لا بأس“ کا لفظ اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کہ اس کا غیر ”اَولیٰ“ اور ”بہتر“ ہے۔ اس میں خوب غور وفکر کرو۔ (فاکھۃ البستان فی مسائل ذبح وصید الطیر والحیوان، صفحۃ 160، مطبوعہ بیروت)

مجاہد کے لیے دشمن پر رعب طاری کرنے کی غرض سے سفید بال اکھیڑنا، مکروہ نہیں، جیساکہ بہار شریعت میں ہے :”سفید بالوں کو اوکھاڑنا یا قینچی سے چُن کر نکلوانا مکروہ ہے، ہاں مجاہِد اگر اس نیت سے ایسا کرے کہ کفار پر رعب طاری ہو تو جائز ہے۔“ (بھار شریعت، جلد 3، صفحہ587، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

اسی میں دوسرے مقام پر ہے: ” سفید بال اکھیڑنے میں حرج نہیں جبکہ بقصدِ زینت (خوبصورت نظر آنے کی نیت سے) ایسا نہ کرے۔ اور ظاہر یہی ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ زینت ہی کے ارادہ سے کرتے ہیں تاکہ یہ سپیدی (سفیدی) دوسروں پر ظاہر نہ ہو اور جوان معلوم ہوں، اسی وجہ سے حدیث میں اس سے ممانعت آئی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ داڑھی میں اس قسم کا تصرف زیادہ ممنوع ہوگا۔“   (بھار شریعت، جلد 3، صفحہ589، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  FSD-9337

تاریخ اجراء30 ذو  القعدہ الحرام 1446  ھ / 28 مئی 2025ء