
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک تنظیم، جو لوگوں کے نفعِ عام کے لیے سڑکوں، روڈوں وغیرہ مختلف جگہوں اور مقامات پر درخت لگاتی ہے، اس نے لوگوں سے درخت لگانے کے لیے چندہ لے کر نفعِ عام کے لیے عام شاہراہ اور مختلف پارکس میں پھل والے درخت لگا دیے۔ سوال یہ ہے کہ ان درختوں پر اُگنے والے پھل جو بھی چاہے، کھا سکتا ہے؟ یا پھر ان کے متعلق شرعی حکم کیا ہوگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جب وہ درخت لوگوں سے نفعِ عام کے لیے حاصل کیے گئے چندے سے لگائے گئے ہیں، تو ان کا پھل بھی نفعِ عام کے لیے ہو گا، لہٰذا ان درختوں کو نقصان پہنچائے بغیر ان پر اُگنے والے پھل جو بھی مسلمان چاہے، کھا سکتا ہے۔ اس کی ایک فقہی مثال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خاص شرعی اجازت کی صورت میں مسجد کے احاطہ میں پھل دار درخت لگائے اور اس نے یہ درخت مسجد پر وقف نہ کیے ہوں، بلکہ فی سبیل اللہ یعنی عام مسلمانوں پر وقف کے طور پر ان کے فائدے کے لیے لگائے ہوں، تو مسجد میں آنے والا ہر مسلمان ان کا پھل کھا سکتا ہے۔
چنانچہ درمختار میں ہے:
”غرس في المسجد أشجارا تثمر ، إن غرس للسبيل فلكل مسلم الأكل، و اِلّا فَتُباع لمصالح المسجد“
ترجمہ: ایک شخص نے مسجد میں پھل دار درخت بوئے، اگر اس نے فی سبیل اللہ بوئے ہوں، تو ہر مسلمان اس کا پھل کھا سکتا ہے، ورنہ ان پھلوں کو مسجد کی ضروریات کے لیے بیچا جائے گا۔
رد المحتار میں ہے:
”(قوله: إن غرس للسبيل) و هو الوقف على العامة بحر“
ترجمہ: شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول : (اگر اس نے فی سبیل اللہ بوئے ہوں) اس سے مراد عام لوگوں پر وقف ہونا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الوقف، مطلب استأجر دارا فيها أشجار، ج 6، ص 664، مطبوعہ کوئٹہ)
اس سوال کہ ”مسجدکے احاطہ کے اندر درختوں میں سے یا مسجد کی مِلک کے درختوں میں سے کسی درخت کا پھل یا پھول بلا ادائے قیمت کھانا یا لینا جائز ہے یا نہیں؟“ کے جواب میں امامِ اہلِسنت سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”اگر وہ پیڑ مسجد پر وقف ہیں ، تو بلاادائے قیمت جائز نہیں، ورنہ مالک کی اجازت درکار ہے، اگرچہ اِسی قدر کہ اس نے اِسی غرض سے لگائے ہوں کہ جو مسجد میں ہو، ان سے تمتع (یعنی نفع حاصل) کرے۔“ (فتاویٰ رضویہ، ج 16، ص 443، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”مسافر خانہ ميں پھلدار درخت ہيں، اگر ایسے درخت ہوں، جن کے پھلوں کی قیمت نہيں ہوتی، تو مسافر کھا سکتے ہيں اور قیمت والے پھل ہوں، تو احتیاط یہ ہے کہ نہ کھائے۔ یہ سب اُس صورت ميں ہے کہ معلوم نہ ہو کہ درخت لگانے والے کی کیا نیت تھی یا معلوم ہوکہ مسجد یا مسافر خانہ کے ليے لگایا ہے اور اگر معلوم ہو کہ عام مسلمانوں کے کھانے کے ليے لگایا ہے، تو جس کا جی چاہے، کھا لے۔“ (بھارِ شریعت، حصہ 10، ج 2، ص 567، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Aqs-2652
تاریخ اجراء: 06صفر المظفر1446 ھ/12اگست 2024ء