دارالافتاء اہلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک شخص بیرونِ ملک سے زیادہ مقدار میں کپڑا منگواتا ہے، جس پر اسے کسٹم (ٹیکس) بھی زیادہ دینا پڑتا ہے، اگر کسٹم پورا دیا جائے، تو کپڑا بہت مہنگا پڑ جاتا ہے اور کچھ فائدہ نہیں ہوتا، اس لئے وہ کسٹم کم کروانے کے لئے اسمگلنگ (باہر ملک سے چوری چھپے مال منگوانے) کے طریقوں میں سے یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ اگر کپڑا مثلاً سِلک کا ہے، تو سوتی ظاہر کرتا ہے یا اگر کاٹن کی ایک پیکنگ میں دس تھان ہیں، تو پانچ ظاہر کرتا ہے، یوں اسے کافی بچت ہو جاتی ہے، تو اس طرح کاروبار کرنے کا کیا حکم ہے؟
(2) نیز اس طرح کے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کے متعلق بھی حکم بیان کر دیں کہ حلال ہے یا حرام ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں ذکر کردہ طریقے کے مطابق اس شخص کا بیرونِ ملک سے مال منگوانا متعدد وجوہ کی بناءپر ناجائز، حرام اور گناہ ہے، کہ اس میں جھوٹ، دھوکا دہی، قانونی جرم کے ارتکاب جیسے امور پائے جاتے ہیں۔ لہذا بیرون ملک سے مال منگوانا ہو، تو لازم ہے کہ جھوٹ، دھوکا دہی، رشوت کے لین دین سے مکمل طور پہ بچتے ہوئے جائز قانونی تقاضوں (مطالبوں) کو پورا کر کے ہی مال منگوائیں اور اگر شرعی اور قانونی تقاضوں کو پورا کرنے سے مال مہنگا پڑتا ہو اور فائدہ نہ ہوتا ہو، تو محض دنیاوی نفع کی خاطر حرام کام کرنے کی بجائے کوئی اور جائز کاروبار تلاش کر لیں، جس میں خلافِ شرع کوئی چیز بھی نہ ہو اور اگر پہلے ایسا کر چکے ہوں، تو توبہ بھی کریں اور اللہ رب العٰلمین کی ذات پر کامل بھروسہ رکھیں، اس کی برکت سے امید ہے کہ اللہ عزوجل حلال رزق کے لئے بہترین اسباب پیدا فرما دے گا اور ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے جہاں سے ملنے کا گمان تک نہ ہو گا۔
اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ-وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ﴾
ترجمہ کنز الایمان: اور جو اللہ سے ڈرے، اللہ اس کے لئے نجارت کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا، جہاں اس کا گمان نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسہ کرے تو وہ اسے کافی ہے۔ (پارہ 28، سورۃ الطلاق، آیت 2تا 3)
اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر میں ہے:
’’ ومن یتق اللہ فیما امرہ بہ وترک ما نھاہ عنہ، یجعل لہ من امرہ مخرجا﴿ وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ﴾ ای: من جھة لا تخطر ببالہ ‘‘
ترجمہ: جو اللہ عزوجل سے ڈرتے ہوئے ان کاموں کو کرے، جن کا اس نے حکم دیا اور جن سے منع کیا انہیں چھوڑ دے، تو اللہ عزوجل وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو، یعنی ایسی جگہ سے، جہاں سے رزق ملنے کا اسے وہم بھی نہ ہوا ہو۔ (تفسیر ابن کثیر، سورۃ الطلاق، تحت آیت 2 تا 3، جلد 8، صفحہ 146، مطبوعہ بیروت)
جھوٹوں کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:
﴿ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ ﴾
یعنی پھر ہم جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔ (پارہ3، سورۃ آل عمرآن، آیت 61)
جھوٹ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایاکم والکذب، فان الکذب یھدی الی الفجور وان الفجور یھدی الی النار وان الرجل لیکذب ویتحری الکذب حتی یکتب عند اللہ کذابا‘‘
ترجمہ: جھوٹ سے بچو کہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم میں لے جانے کا ذریعہ ہے، کوئی شخص جھوٹ بولتا اور سوچتا رہتا ہے حتی کہ اللہ کی بارگاہ میں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی التشدید الکذب، جلد 2، صفحہ 339، مطبوعہ لاھور)
دھوکے کے متعلق حدیث پاک میں ہے: ’’من غش فلیس منی‘‘ ترجمہ: جس نے دھوکہ دیا، وہ مجھ سے نہیں (یعنی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں)۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 70، مطبوعہ کراچی)
فیض القدیر میں ہے: ”والغش ستر حال الشئ“ یعنی دھوکے سے مراد کسی چیز کی اصل حالت چھپاناہے۔ (فیض القدیر، جلد6، صفحہ240، مطبوعہ، بیروت)
امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: غدر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد۔ (فتاوی رضویہ، جلد 14، صفحہ 139، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
رشوت لینا دینا حرام ہے۔ چنانچہ جامع الترمذی میں ہے:
’’لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الراشی والمرتشی“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی۔ (جامع الترمذی، جلد1، صفحہ248، مطبوعہ کراچی)
مسند بزار اور المعجم الکبیر میں ارشادِ نبوی ہے:’’الراشی والمرتشی فی النار‘‘ ترجمہ: رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنم میں ہیں۔ (مسند بزار، جلد 3، صفحہ 247، مطبوعہ مکتبۃ العلوم والحکم، مدینہ منورہ)
اپنے آپ کو ذلت پہ پیش کرنا، جائز نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم: لا ینبغی للمؤمن ان یذل نفسہ“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلت پرپیش کرے۔ (جامع ترمذی، جلد2، صفحہ498، مطبوعہ لاھور)
جائز قانون توڑنا شرعاً منع ہے۔فتاوی رضویہ میں ہے: کسی ایسے امر کا ارتکاب جو قانوناً ناجائز ہو، اور جرم کی حد تک پہنچے، شرعاً بھی ناجائز ہو گا، کہ ایسی بات کے لئے جرمِ قانونی کا مرتکب ہو کر اپنے آپ کو سزا اور ذلت کے لئے پیش کرنا شرعاً بھی روا نہیں۔ ( فتاوی رضویہ، جلد 20، صفحہ 192، رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
اسمگلنگ کر کے مال خریدنے بیچنے کے متعلق وقارالفتاوی میں ہے: ”اسمگلنگ کرنا یا اسمگلنگ کا مال بیچنا اور خریدنا اس لیے ناجائز ہے کہ یہ ملک کے قانون کے خلاف ہے اور مسلمان کو خلافِ قانون کوئی کام کرنا، جائز نہیں ہے، اس لیے کہ خلافِ قانون کام کرنے سے جب پکڑا جائے گا، تو پہلے جھوٹ بولے گا، اگر جھوٹ سے کام نہ چلا تو رشوت دے گا، رشوت سے بھی کام نہ چلا تو سزا ہوگی، جس میں اس کی بے عزتی ہے۔ مسلمان کوئی ایسا کام ہی نہ کرے جس سے جھوٹ بولنا یا رشوت دینا پڑے یا جس سے اس کی بے عزتی ہو، مگرایسا کرنے والا گنہگارہونے کے باوجود مال کا مالک ہوجاتا ہے۔“ (وقارالفتاوی، جلد1، صفحہ252، مطبوعہ کراچی)
(2) اور جہاں تک ایسے کاروبار کی آمدنی کا تعلق ہے، تو اگر کپڑا خریدنے، بیچنے میں خرید و فروخت کی سب شرطیں پائی گئیں، تو اس سے حاصل ہونے والی آمدنی تو حلال ہو گی، لیکن آمدنی حلال ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسا کام کرنے کی بھی اجازت ہے، آمدنی حلال ہونے کے باوجود جب یہ کام کرنا ہی گناہ ہے، تو اس کی ہر گز اجازت نہیں ہو گی، نیز یہ بات بھی یاد رہے کہ گناہ کی نحوست کے سبب روزی سے برکت بھی اٹھا لی جاتی ہے۔
وقارالفتاوی میں ہے: ”اسمگلنگ کرنا یا اسمگلنگ کا مال بیچنا اورخریدنا اس لیے ناجائز ہے،۔۔۔مگر ایسا کرنے والا گنہگار ہونے کے باوجود مال کا مالک ہوجاتا ہے، جبکہ بیع، شریعت کے مطابق ہو، جب مال میں حرمت نہیں آئی، تو اپنا مال ہرکام میں خرچ کرسکتا ہے۔“ (وقارالفتاوی، جلد1، صفحہ252، بزم وقار الدین، کراچی)
گناہ کی نحوست کے سبب برکت اٹھا لی جاتی ہے۔چنانچہ علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ ماپ تول کے متعلق گفتگو کرتے ہوئےفرماتے ہیں:
’’فالبرکۃ تحصل فیہ بالکیل لامتثال امر الشارع واذا لم یمتثل الامر فیہ بالاکتیال نزعت منہ لشوؤم العصیان‘‘
ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے ماپنے سے غلے میں برکت ہو گی اور ماپنے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم کی پیروی نہ کی، توگناہ کی نحوست کی وجہ سے اُس غلے سے برکت اٹھا لی جائے گی۔ (عمدۃ القاری، جلد 8، صفحہ 413، مطبوعہ ملتان)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: Pin-7649
تاریخ اجراء: 19ربیع الاول1447ھ/13ستمبر 2025ء