
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے متعلق کے سوشل میڈیا پر کسی شخص کی ذاتی زندگی اور اس کے معاملات کے متعلق غیر مصدقہ خبروں کو پھیلانے والے کے بارے میں کیا حکم شرعی ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
غیر مصدقہ بات پھیلانے کی ممانعت حدیث پاک سے ثابت ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عموما سنی سنائی باتوں میں کچھ نہ کچھ جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہی ہے تویوں یہ جھوٹ بولنے والابنے گا، یاجب ہرسنی سنائی بات آگے کردینے کی اس کی عادت ہوگی تو بسا اوقات وہ بات جھوٹ پر بھی مشتمل ہوگی تو یوں یہ شخص جھوٹ بولنے والابن جائے گا۔ نیز ایسی صورت میں کسی کا کوئی عیب بیان کرنے میں دواحتمال ہوں گے کہ یا تو وہ عیب اس کے اندر موجود ہوگا، تواب لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنا غیبت ہوگا، جوکہ بلاوجہ شرعی کرنا، سخت ناجائزوحرام کام ہے اور یا وہ عیب اس میں نہیں ہوگا، تب یہ بہتان ہوگا اور بہتان بہت بڑا گناہ ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع“
ترجمہ: کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کر دے۔(صحیح مسلم، جلد1، صفحہ10، حدیث: 5، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
اس حدیث پاک کے تحت شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ "لمعات التنقیح" میں فرماتے ہیں:
”يعني لو لم يكذب أحدا ولكنه يحدث ما سمع من غير بحث وتفتيش أنه صدق أو كذب وتبين، حسبه هذا التحديث كذبا؛ لأنه يقع في الكذب من حاله هذا، والغالب أن يكون بعضه كذبا البتة، والمقصود المنع عن التحديث بشيء لم يعلم صدقه“
ترجمہ: یعنی اگروہ کسی سے جھوٹ نہیں بولتا لیکن وہ ہر سنی سنائی بات کو اس بات کی تحقیق کیے بغیر کہ آیا وہ سچ ہے یا جھوٹ، آگے بیان کر دیتاہے ، تو یہ بات کرنا اس کے جھوٹے ہونے کے لئے کافی ہے کیونکہ اپنی اس حالت وعادت کی وجہ سے وہ جھوٹ میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ غالب صورتحال یہ ہوتی ہے کہ اس میں کچھ یقینی جھوٹ شامل ہوتا ہے اوراس حدیث پاک کا مقصود اس بات کوبیان کرنے سے ممانعت کرناہے ، جس کی سچائی کااس کوعلم نہ ہو۔ (لمعات التنقیح فی شرح مشکاۃ المصابیح، جلد1، صفحہ472، مطبوعہ: دمشق)
فیض القدیر میں علامہ عبد الرؤوف مناوی علیہ الرحمۃ مذکورہ حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:
”أي إذا لم يتثبت لأنه يسمع عادة الصدق والكذب فإذا حدث بكل ما سمع لا محالة يكذب والكذب الإخبار عن الشيء على غير ما هو عليه وإن لم يتعمد“
ترجمہ: یعنی سنی سنائی بات کرنے سے مرادیہ ہے کہ جب وہ بغیرتحقیق اورچھان بین کے آگے بات بیان کرے کیونکہ وہ عادۃً سچ اور جھوٹ دونوں سنتا ہے پس جب وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرے گا تو یقیناً جھوٹ بھی بولے گا اورجھوٹ کامطلب ہے کہ کسی کے متعلق ایسی بات بیان کرناجواس میں نہیں ہے اگرچہ اس نے یہ جانتے ہوئے کہ اس میں یہ بات نہیں ہے ، بیان نہ کی ہو۔ (فیض القدیر، جلد5، صفحہ2، حدیث: 6242، مطبوعہ: مصر)
غیبت کی مذمت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے
(وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ)
ترجمہ کنز الایمان: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (القرآن الکریم، پارہ26، سورۃ الحجرات، آیت 12)
جوہرہ نیرہ میں ہے”و من الكبائر۔۔۔ الغيبة“ ترجمہ: غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد2، صفحہ231، المطبعة الخيرية)
امام اہل سنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”غیبت حرام ہے مگر مواضع استثناء میں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24 ، صفحہ 358 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
بہار شریعت میں ہے ”غیبت کے یہ معنی ہیں کہ کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو (جس کو وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرتا ہو) اس کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا۔“ (بہار شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ 532 ، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
بہتان کے متعلق قرآن پاک میں ہے
﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا)
ترجمہ: اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لیا۔ (سورۃ الاحزاب، پ22، آیت58)
سنن ابو داؤد کی حدیث پاک میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”ومن قال في مؤمن ما ليس فيه أسكنه الله ردغة الخبال حتى يخرج مما قال“
ترجمہ: جو کسی مسلمان کے بارے میں ایسی بات کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ عزوجل اس وقت تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہوگا، اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔ (سنن ابی داؤد، جلد3، صفحہ305، حدیث: 3597، المكتبة العصرية)
تہمت کے متعلق امام اہل سنت اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ” کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرامِ قطعی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 24 ، صفحہ 386 ، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4269
تاریخ اجراء: 02ربیع الثانی1447 ھ/26ستمبر 2520 ء