
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا ایک فلاحی ادارہ ہے، جس میں یتیم اور معذور بچوں کی پرورش کی جاتی ہے، ان میں بالغ و نابالغ ہر طرح کے بچے بچیاں ہیں، وہ ایک ہی پورشن میں رہتے ہیں، اس طرح کہ لڑکے اور لڑکیوں کے رہائشی کمرے جدا جدا ہیں، لیکن ان کا کھانا پینا اور کھیلنا اکھٹے ایک ہی جگہ ہوتا ہے، تو شرعی رہنمائی درکار ہے کہ اس طرح بالغ بچے بچیوں کو اکٹھا رکھنا کیسا ہے؟
سائل:عدنان(اسلام آباد)
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
یتیم اور معذور بچے بچیوں کی پرورش و کفالت بلاشبہ دینی، اخلاقی اور معاشرتی لحاظ سے بہت اعلی و مستحسن عمل اور عظیم خدمتِ خلق ہے، جس کی احادیثِ طیبہ میں بہت فضیلت وارد ہے۔ تاہم اس کے ساتھ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے، اور جس کے پاس جتنی بڑی ذمہ داری ہوتی ہے اس پر اتنی ہی زیادہ احتیاطیں اور شرعی پابندیاں بھی لازم ہوتی ہیں۔اگر اس ذمہ داری کو صحیح طریقے سے احکاماتِ شرعیہ کےعین مطابق نہ نبھایا گیا تو یہ ثواب کی بجائے گناہ اور وبالِ عظیم کا باعث بن سکتی ہے اور خصوصاً یہاں تو یتیم ومعذور بچوں کے ساتھ بچیوں کی پرورش کا معاملہ بھی ہے تو اس میں شرعی و اخلاقی لحاظ سے اور بھی زیادہ محتاط ہونے کی حاجت ہے۔ الغرض ان بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت ایسی ہونی چاہئے کہ یہ اچھے، باحیا، بااخلاق مسلمان اور مہذب و باوقار شہری بن سکیں۔
بہرحال صورتِ مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے بلوغت کے بعد لڑکیوں کو نا محرم لڑکوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور انہیں آپس میں بے پردگی، بے تکلفی، میل جول رکھنے بلکہ بلا حاجت ایک دوسرے سے گفتگو کرنے سے بھی سخت ممانعت فرمائی ہے۔پھر ایسے مخلوط وبے پردہ ماحول میں جومزید اخلاقی ومعاشرتی خرابیاں جنم لیتی ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، لہٰذا مذکورہ ادارے کا بالغ لڑکے لڑکیوں کو ایک ہی پورشن میں رہائش دینا اور اکٹھے ایک جگہ ان کے کھانے اور کھیلنے کا انتظام کرنا شریعت کی صریح خلاف ورزی، ناجائز وگناہ اور باعث فتنہ ہے۔ ادارے کی انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ بالغ اور قریب البلوغ لڑکے لڑکیوں کے درمیان شرعی پردے کا مکمل اہتمام کریں، ان کے رہائشی، تفریحی، تعلیمی امور اور بقیہ تمام معاملات کو مکمل طور پر علیحدہ رکھیں اور لڑکوں کے لیے میل اسٹاف(male staff) اور لڑکیوں کے لیے فی میل اسٹاف (female staff ) کا انتظام کریں تاکہ کسی طرح کی کوئی شرعی واخلاقی خرابی پیدا نہ ہو۔
یتیم کی کفالت کے متعلق حدیث پاک میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أنا وكافل اليتيم في الجنة هكذا وأشار بالسبابة والوسطى، وفرج بينهما شيئا
ترجمہ:میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ فرمایا اور دونوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا۔(صحيح البخاري، ج 7، ص 53، حدیث 5304،دار طوق النجاۃ، بیروت)
ایک اور حدیث پاک میں ہے:
من قبض يتيما من بين المسلمين إلى طعامه وشرابه أدخله الله الجنة البتة إلا أن يعمل ذنبا لا يغفر له
ترجمہ: جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کے کھانے پینے کی ذمہ داری لی، اللہ تعالیٰ اسے یقیناً جنت میں داخل فرمائے گا، سوائے یہ کہ وہ ایسا گناہ کرے جس کی معافی نہ ہو۔ ( سنن الترمذي، ج 3، ص 384، دار الغرب الاسلامی، بیروت)
پردے کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ﴾
ترجمہ کنز العرفان: مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔ اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کا حصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں۔ (پارہ18، سورۃ النور ، الآیۃ 30 تا 31)
ایک اور مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ- ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ- وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ﴾
ترجمہ کنز العرفان:اے نبی!اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے او پر ڈالے رکھیں، یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں ستایا نہ جائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پارہ 22، سورۃ الاحزاب، الآیۃ59)
بالغ لڑکوں کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے:
﴿وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْؕ- كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖؕ- وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور جب تم میں سے لڑکے جوانی(بلوغت) کی عمر کو پہنچ جائیں تو وہ بھی (گھر میں داخل ہونے سے پہلے) اسی طرح اجازت مانگیں جیسے ان سے پہلے (بالغ ہونے) والوں نے اجازت مانگی۔ اللہ تم سے اپنی آیتیں یونہی بیان فرماتا ہے اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔ (پارہ18، سورۃ النور، الآیۃ 59)
عورت کو مکمل طور پر پردے کا حکم ہے،چنانچہ جامع ترمذی میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”المرأة عورة‘‘ ترجمہ عورت سراپا پردہ ہے۔ ( جامع الترمذی، جلد 2، صفحہ 467 ،حدیث1173، دار الغرب الاسلامی،بیروت )
مردوں عورتوں کے اختلاط کے متعلق سنن ابوداؤد میں حضرت ابواُسید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
أنہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقول وھو خارج من المسجد فاختلط الرجال مع النساء فی الطریق، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للنساء: استأخرن، فإنہ لیس لکن أن تَحقُقن الطریق، علیکن بحافات الطریق، فکانت المرأۃ تلتصق بالجدار حتی إن ثوبها لیتعلق بالجدار من لصوقها بہ
ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد سے باہر تشریف لارہے تھے کہ راستےمیں مردوں اور عورتوں کا اکٹھ ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں سے فرمایا: تم پیچھے رہو، تمہیں یہ درست نہیں کہ بیچ راستے میں چلو، بلکہ راستے کے کنارے چلا کرو، پھر عورت دیوار کے بلکل ساتھ لگ کر چلتی تھی، حتی کہ دیوار کے ساتھ چلنے سے اس کا کپڑا دیوار سےاڑجاتاتھا۔ (سنن ابی داؤد، جلد 4، صفحہ 369، حدیث 5272، المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
مردوں کو نامحرم عورتوں کے پاس جانے کی ممانعت کے متعلق حدیث پاک میں ہے:
ایاکم والدخول علی النساء
ترجمہ: (نامحرم) عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ (شعب الايمان ، جلد 7، صفحہ 309، حدیث 5054،مطبوعہ رياض)
خواتین کے لیے سب سے بہترین چیز نا محرم مردوں سے پردہ ہے، چنانچہ مسندِ بزار میں روایت ہے:
عن علی رضی اللہ تعالی عنہ أنہ کان ثم رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فقال: أی شیء خیر للنساء؟ فسکتوا. فلما رجعت قلت لفاطمۃ: أی شیء خیر للنساء؟ فقالت أن لا یراہن الرجال، فقلت للنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم، فقال إنما فاطمۃ بضعۃ منی.
ترجمہ: حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہےکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کے پاس حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے استفسار فرمایا، عورتوں کے لئے کون سی چیز سب سے بہتر ہے؟ جواب میں سب صحابہ کرام علیھم الرضوان خاموش رہے۔ جب میں واپس آیا تو میں نے یہ سوال حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کیا کہ عورتوں کے لئے کون سی چیز سب سے بہتر ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: عورتوں کیلئے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ (نا محرم) مرد انہیں نہ دیکھنے پائے۔ میں نے جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم کو (فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ جواب) بتایا، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ تَو میری لختِ جگر ہے۔ (مسند البزار، ج 1، ص 160، حدیث 526، مکتبۃ العلوم و الحکم، المدینۃ المنورہ)
مرد کےلیے اجنبی و نامحرم عورت کو دیکھنےکے متعلق علامہ بُرہان الدین مَرْغِینانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
و لا یجوز ان ینظر الرجل الی الاجنبیۃ
ترجمہ: مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔ (الھدایہ، کتاب الکراھیۃ، فصل فی الوطء و النظر و المس، جلد 4، صفحہ 368، دار احياء التراث العربي، بیروت)
بالغ ہونے کے بعد لڑکی پر نامحرموں سے پردہ لازم ہوجاتا ہے، چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: ’’ نوبرس سےکم لڑکی کوپردہ کی حاجت نہیں اور جب پندرہ برس کی ہو،سب غیرمحارم سےپردہ واجب اور نو سے پندرہ تک اگرآثارِ بلوغ ظاہرہوں،تو واجب اور نہ ظاہر ہوں،تومستحب،خصوصاًبارہ برس کےبعدبہت مؤکد کہ یہ زمانہ قربِ بلوغ وکمالِ اشتہاکاہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 23، ص 639، رضافاؤنڈیشن، لاھور)
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ”لڑکیوں کا اجنبی نوجوان لڑکوں کے سامنے بے پردہ رہنا بھی حرام۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 23 ص 691، ملتقطاً، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
بے پردگی فتنے کا سبب ہے اور جیسے فتنہ حرام ہے ویسے ہی فتنے کے اسباب بھی حرام ہیں، جیساکہ فتاوی رضویہ میں ہے: ’’شریعتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جس طرح فتنہ کو حرام فرمایا دواعیِ فتنہ(فتنے کے اسباب و محرکات) کو بھی حرام فرمادیا۔۔۔ اجنبیہ سے خلوت، نظر، مس، معانقہ، تقبیل اس لئے حرام ہوئے کہ دواعی ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، ج 24، ص 120، رضا فائونڈیشن، لاہور)
نوٹ:یہ بات ذہن نشین رہے کہ شرعی اعتبار سے بچّہ یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں، بالغ ہونے کے بعد شرعاً وہ یتیم نہیں رہتے۔
درمختار میں ہے:
و اليتيم اسم لمن مات أبوه قبل الحلم. قال صلى الله عليه وسلم لا يتم بعد البلوغ
ترجمہ: یتیم اُس بچے کو کہا جاتا ہے جس کے والد اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: بلوغت کے بعد یتیمی نہیں رہتی۔(درمختار، ص 742،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: PIN-7641
تاریخ اجراء: 10ربیع الاول1447ھ/04ستمبر2025ء