
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ حمل معلوم کرنے کےلئے پریگننسی ٹیسٹ اسٹرپ سے ٹیسٹ کرنے کی صورت میں اگر ظاہر ہو کہ حمل ہے اور اس کے باوجود عورت کو عادتِ حیض کے ایام میں خون جاری ہو جائے اور ڈاکٹر کہے کہ ہم خون ٹیسٹ کے بعد ہی اس حمل کو کنفرم بتائیں گے، تو کیا اسٹرپ کے ٹیسٹ کی بنیاد پر عورت کو حاملہ شمار کرتے ہوئے اس خون کو استحاضہ شمار کریں گے خون ٹیسٹ کی رپورٹ آنے تک ؟ یا ڈاکٹر کے کنفرم کرنے تک ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند باتیں جان لیں!
اولاً یہ کہ عورت کو حمل ہونے یا نہ ہونے کی پہچان کا تعلق طب (Medical) سے ہے، اس لئے اسے ظاہری علامات اور حمل کی نشانیوں سے جانچا جائے گا اور پھر اسی کی بنیاد پر حمل کے ہونے یا نہ ہونے کے احکام لاگو ہوں گے۔
ثانیاً یہ کہ اس طرح کے طبعی معاملات میں لوگوں کی عادتوں اور طبیعتوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے اُس معاملے کو صاحبِ معاملہ (اس عارضے میں مبتلا فرد) کی رائے کے سپرد کیا گیا ہے کہ اسے اپنی طبیعت کے موافق جو بات دل میں قرار پکڑے، اس کے مطابق حکم شرعی پر عمل کر لے، کیونکہ ہر شخص اپنے حال سے زیادہ واقف ہوتا ہے اور فقہاء نے ان معاملات میں ایسا کوئی ضابطہ مقرر نہیں کیا جو ہر فرد پر لاگو ہو سکے۔ یعنی اس طرح کے معاملات کا مدار مختلف علامات اور لوگوں کی ذاتی طبیعتوں پر ہوتا ہے کہ اگر انہیں اپنی طبیعت کی وجہ سے قلبی اطمینان ہو جائے تو یہ اطمینانِ قلبی، معتبر ہو گا۔
ثالثاً یہ کہ حیض، نفاس، طہر اور حمل وغیرہ معاملات کا مدار مختلف علامتوں پر ہے اور ان علامات کے ظاہر ہونے سے ہی عورتیں اپنی پاکی، حیض اور حمل وغیرہ کے معاملات کو دیکھتی ہیں اور فقہاء نے بھی ان معاملات میں علامات کو معیار بنا کر ہی احکامات بیان فرمائے ہیں، کہ فلاں علامت حیض ہونے کی ہے، فلاں چیز نکلے تو یہ حیض ختم ہونے اور طہر کی علامت شمار ہو گی اسی طرح بچہ پیدا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ خون رحم سے ہی آ رہا ہے، وغیرہ۔اور فقہاء نے متعدد مسائل میں یہ صراحت فرمائی ہے کہ ظاہری علامت ظنِ غالب کا فائدہ دیتی ہے اور یہ عمل کے لئے ایک معتبر دلیل ہے، اور جب ظن غالب ہو جائے تو صاحبِ معاملہ اس کے مطابق عمل کر لے اور فقہاء کے ظاہری علامات کا اعتبار کرنے اور اس کے مطابق حکم لگانے کی کئی نظائر موجود ہیں، جیسے محراب اور اسطرلاب وغیرہ کی علامات سے قبلہ کو پہچاننا، لا وارث میت کی ظاہری علامات کا اعتبار کرتے ہوئے اس پر غسل و نماز جنازہ کے احکام لاگو کرنا، اسی طرح مردار اور ذبیحہ جانور مکس ہوجائیں تو پانی میں ڈال کر ان کے تیرنے، نہ تیرنے کی علامت سے حلال و حرام کی پہچان کرنا وغیرہا۔
اور فقہاء نے یہاں تک فرمایا کہ جس کام کے لئے جو آلات وضع کئے گئے ہوتے ہیں، ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور انہیں چلانے کی واقفیت رکھنے والے فرد کو ان آلات سے حاصل ہونے والی معلومات سے غلبہ ظن بھی حاصل ہو جائے گا اور وہ ان آلات کی ظاہری علامات پر عمل کرے گا۔
اور موجودہ دور میں ابتدائی طور پر حمل کو ٹیسٹ کرنے کا ایک ذریعہ Pregnancy Test Strips بھی ہے، جسے بنانے والی کمپنیاں اس کی درستگی (Accuracy) کا 97% سے 99% ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اور متعدد گائنی ڈاکٹرز کے مطابق وہ بھی ان اسٹرپس کو قابلِ اعتبار سمجھتی اور ان پر یقین کرتی ہیں اور اس ٹیسٹ کے بعد الٹرا ساؤنڈ، حمل کی تفصیلی معلومات کے لئے کیا جاتا ہے۔ لہذا حمل کے معاملے میں اگر اسٹرپ کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے، تو اسٹرپ سے عورت کا حاملہ ظاہر ہونا بھی حمل کی ایک علامت ہے، اس لئے جب عورت اسٹرپ استعمال کرے جیسے عموما یہ ہوتا ہے کہ عورت کو کسی بھی وجہ سے حاملہ ہونے کا احساس ہوتا ہے (جیسے طبیعت میں تغیر یا ایام عادت کے باوجود ماہواری شروع نہ ہونا وغیرہ، کسی بھی وجہ سے حمل کا احساس ہو)، پھر وہ اسٹرپ کو استعمال کرتی ہے اور یوں اگر اس پر حمل کی علامت ظاہر ہو تو اس کا اعتبار کیا جائے گا اور اس علامت سے عورت کا ظن، ظنِ غالب میں بدل جائے گا اور چونکہ اسٹرپ سے حاصل ہونے والی علامت سے اسے اپنے حاملہ ہونے کا غلبہ ظن حاصل ہو جائے گا اس لئے وہ خود کو حاملہ شمار کرے گی۔
اور جہاں تک حیض اور حمل میں آنے والے خون کا تعلق ہے، تو یاد رہے کہ حیض اس خون کا نام ہے، جو رحم سے نکلتا ہے، جبکہ حاملہ کو رحم سے خون نہیں نکلتا، کیونکہ اللہ تعالی نے اِس معاملے میں یہ عادت جاری فرمائی ہے کہ عورت جب حاملہ ہو جاتی ہے، تو اس کے رحم کا منہ بند ہو جاتا ہے اور اس سے کچھ نہیں نکلتا، اس لئے فقہاء نے بیان فرمایا ہے کہ حاملہ کو آنے والا خون اگرچہ زیادہ عرصے تک جاری رہے، حیض نہیں ہے، کیونکہ یہ رحم سے نہیں آ رہا اور حیض ہوتا ہی وہ خون ہے جو رحم سے آئے، لہذا یہ خون استحاضہ شمار ہوتا ہے اور استحاضہ میں عورت نماز روزہ ادا کرے گی۔
اور رہی یہ بات کہ اگر کسی علامت سے غلبہ ظن حاصل ہونے کی وجہ سے عورت کے ذہن میں خود کا حاملہ ہونا بھی ہو اور پھر اسے خون بھی آئے، تو اس ظاہری حمل میں آنے والے خون کو حیض یا استحاضہ کیسے شمار کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس خون کے حیض یا استحاضہ ہونے کا درست تعین، در حقیقت وضعِ حمل (بچہ پیدا ہونے یا حمل ضائع ہونے) کے بعد ہی ہوتا ہے کہ اگر بچے کے اعضاء بنے ہوئے ہوں، تو عورت حاملہ شمار ہوتی ہے اور اس کو دورانِ حمل آنے والا خون استحاضہ تھا اور اگر بچے کے اعضاء نہ بنے ہوئے ہوں تو شرعا یہ حمل تھا ہی نہیں اور اس پر حمل کے احکام بھی لاگو نہیں ہوتے (یعنی وضع حمل سے عدت پوری ہونے کے معاملے میں اسے حمل ہی قرار نہیں دیا جاتا اور اسی طرح اس کے بعد آنے والا خون نفاس بھی نہیں ہوتا، وغیرہ) اور اگر اسقاطِ حمل سے قبل آنے والا خون حیض کی شرائط پر پورا اترتا تھا، تو وہ حیض تھا لیکن چونکہ اس خون کے حیض یا استحاضہ شمار ہونے کا تعین وضعِ حمل کے بعد ہی ہو سکتا ہے، اس لئے فی الحال ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے اسے حمل اور اس خون کو استحاضہ شمار کرتے ہوئے عورت کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ نماز روزہ نہ چھوڑے، بلکہ اسے جاری رکھے، کیونکہ خون آنے کی اس حالت میں اس عورت کے حاملہ یا غیر حاملہ ہونے یا دوسرے الفاظ میں عورت کے حیض یا پاکی میں ہونے میں شک و تردد ہے اور محض شک کی بنیاد پر نماز پڑھنے کو ترک نہیں کیا جا سکتا، اس لئے وہ اس کیفیت میں اپنی نمازوں کو جاری ہی رکھے گی۔
لیکن جب وضعِ حمل کے بعد اس خون کے حیض یا استحاضہ ہونے کا یقین ہو جائے، تو اس کے مطابق احکام پر عمل کرے گی، یعنی اگر بچے کے اعضاء بنے ہوئے تھے، تو یہ استحاضہ تھا اور اگر اس دوران کوئی نماز رہ گئی تھی، تو اس کی قضا کر لےاور اگر اعضاء نہیں بنے تھے، تو یہ خون (حیض کی دیگر شرائط کی موجودگی میں)حیض تھا اور اس دوران عورت نے اپنی کوئی سابقہ قضا نماز یا روزہ ادا کیا تھا، تو اس کو دوبارہ قضا کرے گی۔
لہذا پوچھی گئی صورت کا جواب یہ ہے کہ جب عورت کو اسٹرپ سے چیک کرنے سے ظن غالب ہو گیا کہ وہ حاملہ ہے تو اس حالت میں جاری ہونے والے خون کی وجہ سے وہ حمل اور حیض کے درمیان شک و تردد کا شکار ہو گی اور ایسی متردد عورت کے بارے میں فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کو جاری رکھے اور انہیں ترک نہ کرے۔
نیز یہ بھی یاد رہے کہ یہ حکم نمازوں کی ادائیگی جاری رکھنے کے حوالے سے ہے، جبکہ حیض و طہر کی حالت میں تردد کی وجہ سے اس عورت کو یہ حکم بھی ہے کہ شوہر سے ہمبستری نہ کرے، کیونکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کو حیض و طہر کے ایام میں تردد ہو یعنی حتمی طور پر علم نہ ہو سکے کہ یہ حیض ہی کے ایام ہیں یا طہر کے، تو ایسی صورت میں اگرچہ خون نہ آئے، پھر بھی عادت کے مطابق پاکی کے ایام نہ آنے تک اس عورت کے شوہر کو اس سے ہمبستری کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کہ ان ایام کے حیض ہونے کا احتمال ہوتا ہے اور جہاں حیض و طہر میں تردد و شک ہو تو وہاں فقہاء یہی حکم دیتے ہیں کہ ایسی عورت نمازیں جاری رکھے، لیکن حیض کے احتمال کی وجہ سے شوہر سے ہمبستری نہ کرے۔
بالترتیب جزئیات ملاحظہ فرمائیں:
کون سی چیز حمل ہے اور کون سی نہیں، یہ معاملہ خالصتاً طب سے متعلق ہے اور اس میں حمل کی علامات اور نشانیوں کے ذریعے سے حکم لگایا جائے گا، چنانچہ مبسوط سرخسی میں ہے
”وهذا من باب الطب ليس من الفقه في شيء فلم نقل به لهذا، ولكن حكمنا السيما والعلامة، فإن ظهر فيه شيء من آثار النفوس فهو ولد والنفاس هو الدم الخارج بعقب خروج الولد، وإن لم يستبن فيه شيء من الآثار فهذه علقة أو مضغة فلم يكن للدم المرئي بعدها حكم النفاس“
ترجمہ: اور (حمل سے متعلق)یہ سارا طب کا معاملہ ہے اور اس کا فقہ سے کوئی تعلق نہیں، اسی لئے ہم ایسا کچھ نہیں کہتے(جیسے شوافع نے کچھ تجربات کرنے کا کہا ہے)، لیکن ہم نشانی اور علامت سے (اس کے حمل ہونے یا نہ ہونے کا)حکم لگائیں گے، لہذا اگر اس میں زندگی کے آثار (اعضاء بننا) ظاہر ہوں، تو وہ بچہ ہے اور نفاس وہ خون ہے جو بچے کی ولادت کے بعد نکلتا ہے اور اگر اس میں آثارِ زندگی ظاہر نہ ہوں، تو یہ علقہ یا مضغہ ہے اور اس کے بعد آنے والے خون پر نفاس کا حکم نہیں ہو گا۔(المبسوط السرخسی، کتاب الحیض، باب النفاس، جلد 3، صفحہ 224، مطبوعہ کوئٹہ)
لوگوں کی طبیعتوں کے مختلف ہونے اور ایسے طبعی معاملات میں قلبی اطمینان پر عمل کرنے کے بارے میں ایک مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے درر الحکام شرح غرر الحکام میں ہے
”والصحيح أن طباع الناس وعاداتهم مختلفة فمن في قلبه أنه صار طاهرا جاز له أن يستنجي لأن كل أحد أعلم بحاله“
ترجمہ: اور صحیح یہ ہے کہ لوگوں کی طبیعتیں اور عادتیں مختلف ہوتی ہیں، تو جب اس کے دل میں یہ بات آ جائے کہ وہ پاک ہو گیا ہے، تو اس کے لئے استنجاء کرنا جائز ہے، کیونکہ ہر شخص اپنے حال سے زیادہ واقف ہوتا ہے۔(درر الحکام شرح غرر الحکام، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 50، مطبوعہ بیروت)
اسی طرح کے ایک اور مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:
”اقول۔۔۔ ویظھر لی ان یفوض الی رأی المبتلی بہ کما ھو داب امامنا رضی اللہ تعالٰی عنہ فی امثال المقام ای یعلم من نفسہ ان انقطع مادۃ الزائل بشھوۃ ولو کان لہ بقیۃ لخرج کیف وان الطبائع تختلف وھذا ماصححوہ فی الاستبراء کمافی الحلیۃ وغیرھا“
ترجمہ: میں کہتا ہوں اور میرا خیال یہ ہے کہ اس معاملے کو مبتلا شخص کی رائے کے سپرد کر دیا جائے، جیسا کہ اس طرح کے (دیگر)مقامات میں ہمارے امام رضی اللہ عنہ کا یہی دستور ہے، یعنی اسے خود اطمینان ہو جائے کہ شہوت سے جدا ہونے والی منی کا مادہ ختم ہو گیا اور اگر کچھ بقیہ ہوتا تو وہ نکل آتا۔ اور اس طرح کے معاملات میں ایسا کیوں نہ کیا جائے؟ جبکہ طبیعتیں مختلف ہوتی ہیں اور (ایک اور طبعی مسئلے) استبراء کے معاملے میں بھی علماء نے اسی (صاحبِ معاملہ کی رائے کے سپرد کرنے) کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1 ب، صفحہ 700، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
انقطاعِ حیض اور ابتدائے طہر کو بھی علامت سے جانچا گیا ہے، چنانچہ تبیین الحقائق میں ہے
”القصة شيء يشبه الخيط الأبيض يخرج من قبل النساء في آخر أيامهن يكون علامة على طهرهن“
ترجمہ: قصۃ سفید دھاگے کی مانند ایک چیز ہے، جو عورتوں کو ان کی ماہواری کے ایام کے آخر میں نکلتا ہے، یہ ان عورتوں کے طہر پر علامت ہو گا۔(تبیین الحقائق، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، جلد 1، صفحہ 55، مطبوعہ قاھرۃ)
بچہ پیدا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ (بعدِ ولادت)خون رحم سے ہی آ رہا ہے، چنانچہ اللباب فی شرح الکتاب میں ہے
”(وأقل النفاس لا حد له)، لأن تقدم الولد علامة الخروج من الرحم“
ترجمہ: اور نفاس کی کم از کم مدت کی کوئی حد نہیں ہے، کیونکہ اس سے پہلے بچے کا پیدا ہونا، اس خون کے رحم سے نکلنے کی علامت ہے(اس لئے اس خون کے رحم سے نکلنے کی کوئی اور علامت تلاش کرنا ضروری نہیں)۔(اللباب فی شرح الکتاب، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، جلد 1، صفحہ 48، مطبوعہ بیروت)
ظاہری علامت ظنِ غالب کا فائدہ دیتی ہے اور یہ عمل کے لئے ایک معتبر دلیل ہے، چنانچہ رد المحتار میں ہے
”لأنه علامة ظاهرة تفيد غلبة الظن وغلبة الظن حجة موجبة للعمل كما صرحوا به“
ترجمہ: کیونکہ یہ ظاہری علامت ہے، جو ظنِ غالب کا فائدہ دیتی ہے اور ظنِ غالب ایسی دلیل ہے، جو عمل کرنا واجب کر دیتی ہے، جیسا کہ فقہاء نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصوم، جلد 2، صفحہ 386، مطبوعہ بیروت)
مزید اسی میں ہے
”لأن غلبة الظن بمنزلة اليقين، فإذا تحرى وغلب على ظنه شيء لزمه الأخذ به“
ترجمہ: کیونکہ غلبہ ظن، یقین کے درجے میں ہے تو جب اس نے تحری کی اور اسے کسی چیز کا ظن غالب ہو گیا، تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے لے (یعنی اس پر عمل کرے)۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد 2، صفحہ 94، مطبوعہ بیروت)
اسی بارے میں تبیین الحقائق اور حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے
”علامة تغلب على ظن المبتلي يجب“
ترجمہ: ایسی علامت جو مبتلاء شخص کو ظن غالب کا فائدہ دے، تو اس پر عمل واجب ہو جاتا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، جلد 1، صفحہ 57، مطبوعہ کوئٹہ)
بدائع الصنائع میں ہے
”ولو وجد ميت في دار الاسلام فإن كان عليه سيما المسلمين يغسل ويصلى عليه۔۔۔لحصول غلبة الظن بكونه مسلما۔۔۔ والحاصل أنه لا يشترط الجمع بين السيما ودليل المكان، بل يعمل بالسيما وحده بالإجماع“
ترجمہ: اور اگر دار الاسلام میں کوئی میت ملی، تو اگر اس پر مسلمانوں کی کوئی نشانی موجود ہو، تو اس کے مسلمان ہونے کا ظن غالب حاصل ہو جانے کی وجہ سے اسے غسل دیا جائے گا اور نماز جنازہ ادا کی جائے گی اور حاصلِ کلام یہ ہے کہ نشانی اور مکان کی دلیل کو جمع کرنا شرط نہیں ہے، بلکہ بالاجماع فقط نشانی کی موجودگی میں ہی عمل کیا جائے گا۔(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 303، مطبوعہ بیروت)
حصولِ علامات کے لئے وضع کئے گئے آلات پر اعتماد کیا جا سکتا ہے اور ان آلات سے حاصل ہونے والی علامات سے ظن غالب بھی حاصل ہو جاتا ہے، چنانچہ رد المحتار میں ہے
”إذا كان في المفازة فينبغي وجوب اعتبار النجوم ونحوها في المفازة لتصريح علمائنا وغيرهم بكونها علامة معتبرة، فينبغي الاعتماد في أوقات الصلاة وفي القبلة، على ما ذكره العلماء الثقات في كتب المواقيت، وعلى ما وضعوه لها من الآلات كالربع والأسطرلاب فإنها إن لم تفد اليقين تفد غلبة الظن للعالم بها، وغلبة الظن كافية في ذلك“
ترجمہ: جب کوئی شخص ویرانے میں ہو، تو اب تاروں اور اس کی مثل دیگر علامات کا اعتبار واجب ہو گا، کیونکہ ہمارے علماء نے ان کے معتبر علامات ہونے کی تصریح فرمائی ہے، تو اوقاتِ نماز اور سمتِ قبلہ میں ان پر اعتماد مناسب ہے، جیسا کہ ثقہ علماء نے اوقاتِ نماز کی کتابوں میں اس کو ذکر فرمایا ہے۔ اور ان آلات پر بھی اعتماد کیا جا سکتا ہے، جن کو علماء نے اس کام کے لئے وضع فرمایا ہے، جیسے کہ ربع اور اسطرلاب، کیونکہ اگر یہ یقین کا فائدہ نہ بھی دیں، تو ان کے استعمال سے واقف شخص کو گمان کا فائدہ تو دیں گے اور اس معاملے میں غالب گمان کافی ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 431، مطبوعہ بیروت)
ظن اور ظنِ غالب میں فرق اور ظاہری نشانی سے ظن غالب حاصل ہونے کے بارے میں بحر الرائق میں ہے
”والفرق بينهما على ما حققه اللامشي في أصوله أن أحد الطرفين إذا قوي وترجح على الآخر، ولم يأخذ القلب ما ترجح به، ولم يطرح الآخر فهو الظن، وإذا عقد القلب على أحدهما وترك الآخر فهو أكبر الظن وغالب الرأي اھ . وغلبة الظن هنا أما بأن وجد إمارة ظاهرة“
ترجمہ: ظن اور ظنِ غالب کے فرق کے حوالے سے اصولِ لامشی میں یہ تحقیق ہے کہ جب طرفین میں سے ایک جانب دوسری پر قوت و ترجیح پا جائے، لیکن دل نہ تو اس مرَجَّح جانب کو قبول کرے اور نہ ہی دوسری جانب کو مسترد کرے، تو یہ ظن (گمان) ہے اور جب دل ان دونوں میں سے کسی ایک پر قرار پکڑ لے اور دوسری کو چھوڑ دے، تو یہ اکبر الظن اور غالب رائے (ظنِ غالب) ہے۔ اور غلبہ ظن یہاں یوں حاصل ہو گا کہ کوئی ظاہری نشانی پائی جائے۔(بحر الرائق، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 170، مطبوعہ بیروت)
حاملہ عورت کو حیض نہ آنے کے بارے میں البنایہ شرح الھدایہ میں ہے
”عن عائشة رضي اللہ عنها في الحامل ترى الدم فقالت الحامل لا تحيض وتغتسل وتصلي. وقولها: تغتسل استحباب لكونها مستحاضة “
ترجمہ: حاملہ عورت جو خون دیکھے، اس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا، یہ غسل کرے اور نماز پڑھے۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ فرمانا کہ یہ عورت غسل کرے، یہ استحبابی حکم ہے، کیونکہ یہ استحاضہ والی ہے(اور استحاضہ سے غسل فرض نہیں ہوتا)۔(البنایہ شرح الھدایہ، کتاب الطھارات، باب الحیض، فصل فی النفاس، جلد 1، صفحہ 690، مطبوعہ بیروت)
اسی بارے میں بدائع الصنائع میں ہے
”ودم الحامل ليس بحيض، وإن كان ممتدا۔۔۔ لأن الحيض اسم للدم الخارج من الرحم، ودم الحامل لا يخرج من الرحم لأن اللہ تعالى أجرى العادة أن المرأة إذا حبلت ينسد فم الرحم، فلا يخرج منه شيء فلا يكون حيضا“
ترجمہ: اور حاملہ کو آنے والا خون اگرچہ زیادہ عرصے تک جاری رہے، حیض نہیں ہے، کیونکہ حیض اس خون کا نام ہے، جو رحم سے نکلتا ہے اور حاملہ کو رحم سے خون نہیں نکلتا، کیونکہ اللہ تعالی نے یہ عادت جاری فرمائی ہے کہ عورت جب حاملہ ہو جاتی ہے تو اس کے رحم کا منہ بند ہو جاتا ہے اور اس سے کچھ نہیں نکلتا، لہذا اسے جو خون آئے گا، وہ حیض نہیں ہے۔(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، النفاس والاستحاضہ، جلد 1، صفحہ 159 تا 160، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی بارے میں فتح القدیر میں ہے
”العادة المستمرة عدم خروج الدم وهو للانسداد ثم يخرج بخروج الولد للانفتاح به، وخروج الدم من الحامل أندر نادر فقد لا يراه الإنسان في عمره فيجب أن يحكم في كل حامل بانسداد رحمها اعتبارا للمعهود من أبناء نوعها“
ترجمہ: عادت یہی چلتی آ رہی ہے کہ اس حالت میں خون نہیں نکلتا اور یہ رحم بند ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، پھر جب بچہ نکلتا ہے، تو رحم کھل جاتا ہے، اس لئے اس وقت خون نکلتا ہے، حاملہ کو خون آنا انتہائی نادر ترین صورت ہے کہ انسان اپنی پوری عمر میں کبھی ایسا واقعہ نہیں دیکھتا، لہذا لازم ہے کہ ہر حمل والی کے بارے میں اس طرح کی عورتوں کی عادت دیکھتے ہوئے انسدادِ رحم کا حکم لگایا جائے۔(فتح القدیر، کتاب الطھارۃ، فصل فی النفاس، جلد 1، صفحہ 186، مطبوعہ بیروت)
حمل کے دوران آنے والے خون کے حیض یا استحاضہ ہونے کا صحیح تعین، وضعِ حمل کے بعد ہو گا، چنانچہ مبسوط سرخسی اور محیط برہانی میں ہے
”واللفظ للمحیط“ وإن رأت دما قبل إسقاط السقط۔۔۔ فإن كان السقط مستبين الخلق، فما رأته قبل الإسقاط لا يكون حيضا؛ لأنه تبين أنها حين رأته كانت حاملا، وليس لدم الحامل حکم الحيض۔۔۔ فإن لم يكن السقط مستبين الخلق، فما رأته قبل الإسقاط حيض إن أمكن جعله حيضا بأن وافق أيام عادتها أو كان مرئيا عقيب طهر صحيح؛ لأنه تبين أنها لم تكن حاملا “
ترجمہ: اور اگر عورت نےحمل ساقط ہونے سے پہلے (دورانِ حمل) خون دیکھا، تو اگر ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق تھا(یعنی اعضاء ظاہر ہو چکے تھے)تو جو خون اس نے حمل ساقط ہونے سے پہلے دیکھا تھا، وہ حیض نہ تھا، کیونکہ اس صورت میں یہ واضح ہو گیا کہ جب اس نے خون دیکھا تھا، تب وہ حاملہ ہی تھی اور حاملہ کو آنے والے خون پر حیض کا حکم نہیں ہوتا۔ اور اگر ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق نہ تھا، تو اس نے حمل ساقط ہونے سے پہلے (دورانِ حمل) جو خون دیکھا تھا، اگر اسے حیض بنانا ممکن ہو کہ وہ عادت کے ایام کے موافق یا طہر صحیح کے بعد آیا ہو، تو وہ حیض ہو گا، کیونکہ (بچہ تام الخلق نہ ہونے کی وجہ سے) اب یہ واضح ہو گیا کہ وہ اس وقت حاملہ نہیں تھی۔(المحیط البرھانی، کتاب الطھارات، الفصل التاسع فی الحیض، جلد 1، صفحہ 470، مطبوعہ کراچی)
جس عورت کو یہ لگے کہ وہ حاملہ ہے، تو وہ خون کے دنوں میں اپنی نمازیں ترک نہیں کرے گی، کیونکہ اس خون کے حیض و استحاضہ میں شک ہے اور شک کی وجہ سے نماز نہیں چھوڑی جائے گی، چنانچہ بحر الرائق میں ہے
”وأما شرطه۔۔۔ فراغ الرحم عن الحبل الذي تنفس بوضعه؛ لأن الحامل لا تحيض، وإنما قيدنا بقولنا "تنفس"؛ لأنه إذا سقط منها شيء لم يستبن خلقه فما رأت فعلى هذا يكون حيضا؛ لأنه لا يعلم أنه حبل بل لحم من البطن فلا تسقط الصلاة بالشك“
ترجمہ اور حیض کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ رحم اس حمل سے خالی ہو کہ جو حمل اپنی جگہ میں سانس لے رہا ہو، کیونکہ حاملہ کو حیض نہیں آتا اور ہم نے سانس لینے کی قید اس لئے لگائی ہے کیونکہ جب اس عورت سے کوئی چیز (ادھورا حمل)ساقط ہوئی اور یہ ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق (جس کے اعضاء ظاہر ہو چکے تھے)نہ تھا، تو جو خون اس نے(دورانِ حمل)دیکھا تھا وہ حیض ہو گا، کیونکہ (فی الحال) یہ نہیں جانتی کہ یہ حمل ہے یا پیٹ کا ہی (حمل کی طرح ابھرا ہوا)گوشت ہے، تو (حیض یا حمل میں)شک کی وجہ سے نماز ساقط نہیں ہو گی (یعنی وہ فی الحال نمازیں ادا کرے گی)۔(بحر الرائق، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، جلد 1، صفحہ 332، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی بارے میں مبسوط سرخسی میں ہے
”فإن كانت قد رأت قبل إسقاط السقط دما۔۔۔ لا تترك الصلاة فيما رأت قبل الإسقاط على كل حال ولو تركت فعليها قضاؤها؛ لأنه إن كان السقط مستبين الخلق لم يكن ما رأت قبله حيضها، وإن لم يكن مستبين الخلق كان ذلك حيضا فتردد حالها فيما رأت قبل السقط بين الحيض والطهر فلا تترك الصلاة بالشك“
ترجمہ: اگر عورت نے(دورانِ حمل) حمل ساقط ہونے سے پہلے خون دیکھا، تو یہ عورت حمل ضائع ہونے سے پہلے جن دنوں خون دیکھے، ان میں کسی بھی حالت میں نماز نہ چھوڑے اور اگر اس نے نماز چھوڑی تھی، تو اس پر ان دنوں کی قضا کرنا لازم ہے، کیونکہ اگر یہ ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق تھا(یعنی اعضاء ظاہر ہو چکے تھے)تو جو خون اس نے اس سے پہلے دیکھا تھا، وہ حیض نہ تھا (اور اس صورت میں نماز پڑھنا ضروری تھا)اور اگر یہ ضائع ہونے والا حمل مستبین الخلق نہ تھا، تو وہ خون حیض تھا (اور حیض میں نماز نہیں پڑھنی ہوتی)، لہٰذا حمل ضائع ہونے سے پہلے والی عورت کی حالت، حیض و طہر(پاکی) دونوں کے درمیان متردد ہے، لہٰذا نماز شک کی وجہ سے نہیں چھوڑی جائے گی۔(المبسوط السرخسی، کتاب الحیض، باب النفاس، جلد 3، صفحہ 225 تا 226، مطبوعہ کوئٹہ)
اگر دورانِ حمل حیض کے نصاب (یعنی کم از کم تین دن)کی مقدار خون دیکھے، تو بھی وہ نماز نہیں چھوڑے گی، چنانچہ البنایہ میں ہے
”فإن رأت الدم قبل الإسقاط تنظر إن رأت ثلاثة أيام دما قدر ما يتم به حيضها لا تدع الصلاة فيما رأته قبل الإسقاط بكل حال، لأنه۔۔۔ تردد حالها بين الطهر والحيض فلا تترك الصلاة بالشك“
ترجمہ: اگر عورت نے بچہ ساقط ہونے سے پہلے خون دیکھا، تو اگر یہ خون تین دن کی مقدار دیکھے کہ جس سے حیض کا خون ہونا مکمل ہوتا ہے، تو بچہ ساقط ہونے سے پہلے جو وہ خون دیکھے، اس کی وجہ سے ہر حال میں نماز نہ چھوڑے، کیونکہ ایسی صورت میں اس عورت کی حالت پاکی اور حیض کے درمیان مشکوک ہو گئی ہے، لہذا شک کی وجہ سے نماز کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ (البنایہ شرح الھدایہ، کتاب الطھارات، باب الحیض، فصل فی النفاس، جلد 1، صفحہ 690، مطبوعہ بیروت)
تردد کے ایام میں نمازیں جاری رکھنے لیکن احتیاطاً جماع سے رکنے کے حوالے سے اللباب فی شرح الکتاب اور بحر الرائق میں ہے
”إذا كان الانقطاع لما دون العشرة لأقل من العادة فوق الثلاث لم يقربها حتى تمضي عادتها، وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادات غالب فكان الاحتياط في الاجتناب، كذا في الهداية وصيغة لم يقربها وكذا التعليل بالاحتياط في الاجتناب يقتضي حرمة الوطء“
ترجمہ: جب تین دن سے زیادہ اور دس دن سے کم اور عادت کے ایام سے بھی کم دنوں میں خون بند ہو گیا تو اگرچہ عورت غسل کرلے، عادت کے دن پورے ہونے تک اس کا شوہر اس سے جماع نہیں کرے گا، کیونکہ عادت کے دنوں میں خون کا لوٹ آنا غالب ہے، تو جماع سے بچنے میں احتیاط کی جائے گی، اسی طرح ہدایہ میں ہے اور جماع نہ کرنے کے الفاظ اور اسی طرح بچنے میں احتیاط کی علت کو بیان کرنا، وطی کی حرمت کا تقاضا کرتا ہے۔(بحر الرائق، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، جلد 1، صفحہ 353، مطبوعہ کوئٹہ)
اسی بارے میں حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح اور فتح القدیر میں ہے
”ففي الخلاصة: إذا انقطع دم المرأة دون عادتها المعروفة في حيض أو نفاس اغتسلت حين تخاف فوت الصلاة وصلت واجتنب زوجها قربانها احتياطا حتى تأتي على عادتها لكن تصوم احتياطا“
ترجمہ: خلاصہ میں ہے: جب کسی عورت کا حیض یا نفاس کا خون اس کی عادت کے دنوں سے پہلے ہی بند ہو گیا تو نماز کے فوت ہونے کے خوف کے وقت وہ غسل کر کے نماز ادا کرے گی اور عادت کے دن آنے تک اس کا شوہر احتیاطاً اس سے جماع کرنے سے اجتناب کرے گا، لیکن (نمازوں کی طرح )احتیاطاً (رمضان کے) روزے بھی رکھے گی۔(فتح القدیر، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، جلد 1، ص 174، مطبوعہ کوئٹہ)
حیض اور طہر کے ایام میں تردد کی ایک صورت میں نماز پڑھنے اور جماع سے رکنے کا حکم بیان کرتے ہوئے مبسوط سرخسی اور محیط برہانی میں ہے
”تتوضأ لوقت كل صلاة بالشك، ولا يأتيها زوجها فيها لتردد حالها فيها بين الحيض والطهر“
ترجمہ: وہ شک کے ساتھ ہر نماز کے وقت وضو کرے گی اور اس عورت کے حیض اور طہر کی حالت میں تردد کی وجہ سے اس کا شوہر اس سے جماع نہیں کرے گا۔(محیط برہانی، کتاب الطھارات، الفصل التاسع فی الحیض، جلد 1، صفحہ 460، مطبوعہ بیروت)
حیض و طہر میں شک کی ایک صورت میں نماز پڑھنے اور جماع سے رکنے کے حوالے سے کلام کرتے ہوئے بحر الرائق میں ہے
”والأصل أنها متى تيقنت بالطهر في وقت صلت فيه بالوضوء لوقت كل صلاة وصامت، ومتى تيقنت بالحيض في وقت تركتهما فيه۔۔۔ ومتى شكت في وقت أنه حيض أو طهر أو خروج عن الحيض تصلي فيه بالغسل لكل صلاة لجواز أنه وقت الخروج من الحيض ولا يأتيها زوجها بحال لاحتمال الحيض“
ترجمہ: اور اصل یہ ہے کہ جس وقت میں اسے طہر کا یقین ہو، تو وہ ہر نماز کے لئے وضو کرے گی اور روزہ رکھے گی اور جس وقت میں اسے حیض کا یقین ہو، تو وہ اس میں نماز روزہ چھوڑ دے گی اور جس وقت میں اسے حیض اور طہر میں یا حیض سے نکلنے میں شک ہو، تو حیض سے نکلنے کے امکان کی وجہ سے، وہ ہر نماز غسل کر کے ادا کرے گی اور حیض کے احتمال کی وجہ سے اس حالت میں اس کا شوہر اس سے جماع نہیں کرے گا۔ (بحر الرائق، کتاب الطھارۃ، باب الحیض، جلد 1، صفحہ 362، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب : محمد احمد سلیم مدنی
مصدق : مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر : FSD-9464
تاریخ اجراء : 26 صفر المظفر 1447ھ/21 اگست 2025ء