عورت کا گھر میں لیگنگ اور جیگنگ پہننا کیسا؟

عورت کا گھر میں لیگنگ اور جیگنگ پہننا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا عورتیں گھر میں لیگنگ اور جیگنگ پہن سکتی ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

عورت کا ایسا چست لباس پہن کر غیر محرم کے سامنے آنا کہ جس سے اس کے اعضا کی پوری ہیئت واضح ہو، ناجائز و حرام، گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے کیونکہ یہ لباس پردہ نہیں بلکہ اس میں ایک طرح کی بے پردگی ہے اور ایک تشریح کے مطابق ایسا لباس پہننے والی عورتوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھیں گی، البتہ! بیوی اپنے شوہر کے سامنے جیسا لباس چاہے، پہن سکتی ہے جبکہ شوہر راضی ہو اور وہ لباس کفار یا فساق کا مخصوص لباس نہ ہو، اور نہ مردانہ لباس ہو۔ لیکن شوہر کے علاوہ محارم جیسے بھائی والد وغیرہ کے سامنے اتنا چست اور تنگ لباس پہننا کہ جس سے پیٹ کی ابتدا و پشت سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک کے کسی حصے میں سے کسی حصے کی پوری ہیئت یعنی ابھار واضح طور پر معلوم ہو، شرعاً ناجائز و گناہ ہے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ ایک عورت کادوسری عورت سے ناف کے نیچے سے گھٹنے کے نیچے تک کے سارے حصے کاپردہ ہوتاہے، لہذا اتنے حصے میں سے کسی بھی حصے کوبلاوجہ شرعی دوسری عورت پر بے پردہ ظاہر کرنا یا اتنا چست لباس پہن کردوسری عورت کے سامنے آناکہ اتنے حصے میں سے کسی حصے کی پوری ہیئت دوسری عورت پرواضح ہوتی ہو،یہ بھی جائزنہیں ہے۔

نوٹ:اگر ایسے چست لباس کے اوپردوسرا نارمل لباس وغیرہ پہنا ہو کہ اب دوسروں کے سامنے اس عضوکی ہیئت واضح نہیں ہوتی، جسے دوسرے سے چھپاناضروری ہے تواس میں حرج نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

صنفان من اھل النار لم ارھما۔۔۔ نساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات، رءوسھن کاسنمۃ البخت المائلۃ لا یدخلن الجنۃ و لا یجدن ریحھا وان ریحھا لیوجد من مسیرۃ کذا و کذا

یعنی: دوزخیوں کی دو جماعتیں ایسی ہیں جنہیں میں نے (اپنے زمانے میں) نہیں دیکھا۔ (میرے بعد والے زمانے میں ہوں گی۔ ایک جماعت) ایسی عورتوں کی ہوگی جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی، لیکن حقیقت میں بے لباس اور ننگی ہوں گی، بے حیائی کی طرف دوسروں کو مائل کرنے اور خود مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سر ایسے ہوں گے جیسے بختی اونٹوں کی ڈھلکی ہوئی کوہانیں ہوں، یہ جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ ہی اس کی خوشبو سونگھیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے محسوس کی جائے گی۔ (صحیح المسلم، جلد 3، صفحہ 2192، حدیث: 21ٍ28، دار احیاء التراث العربی، بیروت)

رد المحتار میں ہے

أما لو كان غليظا لا يرى منه لون البشرة إلا أنه التصق بالعضو و تشكل بشكله فصار شكل العضو مرئيا فينبغي أن لا يمنع جواز الصلاة لحصول الستر اھ۔ قال ط: وانظر هل يحرم النظر إلى ذلك المتشكل مطلقا أو حيث وجدت الشهوة؟ م اهـ. قلت: سنتكلم على ذلك في كتاب الحظر، و الذي يظهر من كلامهم هناك هو الأول

 ترجمہ: بہرحال موٹا کپڑا جس سے جلد کا رنگ نہ دیکھا جائے لیکن وہ عضو کے ساتھ ایسا ملا ہو کہ اس عضو کی شکل اختیار کر لے اور عضو کی شکل دیکھی جا سکے تو مناسب یہ ہے کہ یہ جوازِ نماز سے مانع نہ ہو کیونکہ اس سے بھی ستر تو حاصل ہے۔ طحطاوی نے کہا: کیا اس متشکل عضو کی طرف نظر کرنا مطلقاً حرام ہے یا شہوت پائے جانے کے وقت حرام ہے۔؟ میں کہتا ہوں: کہ اس پر کلام حظر اباحت کے بیان میں کریں گے اور جو ان کے کلام سے ظاہر ہے وہ پہلا (یعنی مطلقاً حرام ہونا) ہے۔ (رد المحتار، جلد 2، صفحہ 103، مطبوعہ: کوئٹہ)

رد المحتار میں کتاب الحظرو الاباحۃ میں ہے

أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة و لو كثيفا لا ترى البشرة منه۔۔وعلی ھذالا يحل النظر إلى عورة غيره فوق ثوب ملتزق بها يصف حجمها

ترجمہ: میں کہتا ہوں: اس کامفادیہ ہے کہ کپڑا جب اتناچست ہوکہ جسم کی ہیئت واضح ہوتی ہو تو اس کو دیکھنا ممنوع ہے اگرچہ وہ اتنا موٹا ہوکہ نیچے سے جلدنظرنہ آتی ہو اور اس بناء پر کسی کے سترعورت کوایسےکپڑے کے اوپر سے دیکھنا حلال نہیں ہے، جو ستر عورت کے ساتھ اس طرح چمٹا ہوا ہو کہ اس کی ہیئت واضح ہوتی ہو۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الحظرو الاباحۃ)

فتاوی رضویہ میں ہے "اس کی منکوحہ باریک کپڑے پہنے جن سے بدن یا بال چمکتے ہوں، یا بالوں یا گلے یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصہ ظاہر ہو یا کپڑے اتنے چست ہوں کہ بدن کی ہیأت بتاتے ہوں اور وہ یوں علانیہ مجمع مرداں میں آتی ہے اور شوہر جائز رکھے تو دیّوث فاسق معلن ہے۔" (فتاوی رضویہ، جلد 26، صفحہ 588، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہارشریعت میں ہے " دبیز کپڑا، جس سے بدن کا رنگ نہ چمکتا ہو، مگربدن سے بالکل ایسا چپکا ہوا ہے کہ دیکھنے سے عضو کی ہيات معلوم ہوتی ہے، ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی، مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا جائز نہیں۔ (رد المحتار) اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے اور عورتوں کے ليے بدرجۂ اَولیٰ ممانعت۔ بعض عورتیں جو بہت چست پاجامے پہنتی ہیں، اس مسئلہ سے سبق لیں۔" (بہار شریعت، ج 01، حصہ 03، ص 480،مکتبۃ المدینہ)

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ”یونہی تنگ پائچے بھی نہ چوڑی دار ہوں نہ ٹخنوں سے نیچے، نہ خوب چست بدن سے سلے کہ یہ سب وضع فساق ہے اور ساتر عورت کا ایسا چست ہونا کہ عضو کا پورا انداز بتائے یہ بھی ایک طرح کی بے ستری ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی فرمائی کہ نساء کا سیات عاریات ہوں گی کپڑے پہنے ننگیاں، اس کی وجوہ تفسیر سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کپڑے ایسے تنگ چست ہوں گے کہ بدن کی گولائی فربہی انداز اوپر سے بتائیں گے جیسے بعض لکھنؤوالیوں کی تنگ شلواریں چست کرتیاں۔ رد المحتارمیں ہے:

فی الذخیرۃ وغیرھا ان کان علی المراۃ ثیاب فلا باس ان یتامل جسدھا اذا لم تکن ثیابھا ملتزقۃ بھا بحیث تصف ماتحتھا وفی التبیین قالوا ولا باس بالتأمل فی جسدھا وعلیھا ثیاب مالم یکن ثوب یبین حجمھا فلا ینظر الیہ حنیئذ لقولہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من تامل خلف امرأۃ ورأی ثیابھا حتی تبین لہ حجم عظامھا لم یرح رائحۃ الجنۃ ولانہ متی کان یصف یکون ناظرا الی اعضائھا اھ ملخصا۔

ذخیرہ وغیرہ میں ہے کہ اگر عورت نے لباس پہن رکھا ہو تو اس کے جسم کو دیکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ لباس اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ سب کچھ عیاں ہونے لگے۔ اور تبیین میں ہے کہ ائمہ کرام نے فرمایا: جب عورت لباس پہنے ہو تو اس کی طرف دیکھنے میں کچھ حرج نہیں بشرطیکہ لباس ایسا تنگ اور چست نہ ہوجواس کے حجم کو ظاہر کرنے لگے، اگر ایسی صورت حال ہو تو پھر اس طرف نظرنہیں کی جائے گی، حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کی وجہ سے کہ: جس کسی نے عورت کو پیچھے سے دیکھا اوراس کے لباس پر نظر پڑی یہاں تک کہ اس کے لیے اس کی ہڈیوں کا حجم واضح ہوا، تو ایسا شخص جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔ اوریہ وجہ بھی ہے کہ لباس سے جسم کی ہیئت نظرآتی ہو تو اس لباس کو دیکھنے والا عورت کے اعضادیکھنے والاقرارپائےگا۔ (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 162، 163، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

بہارِ شریعت میں ہے "عورت کا عورت کو دیکھنا، اس کا وہی حکم ہے جو مرد کو مرد کی طرف نظر کرنے کا ہے یعنی ناف کے نیچے سے گھٹنے تک نہیں دیکھ سکتی باقی اعضا کی طرف نظر کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو۔" (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 443، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

بہار شریعت میں ہے ”محارم کے پیٹ ، پیٹھ اور ران کی طرف نظر کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح کروٹ اورگھٹنے کی طرف نظر کرنا بھی ناجائز ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 3، حصہ 16، صفحہ 444، مکتبہ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4338

تاریخ اجراء: 23 ربیع الآخر 1447ھ / 17 اکتوبر 2025ء