
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا خاتون اپنے پھوپھا کے ساتھ سفر پر جاسکتی ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
عورت اپنے پھوپھا کے ساتھ سفر پر نہیں جاسکتی کہ پھوپھا سے نکاح عارضی طور پر حرام ہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نکاح حرام نہیں ہے یعنی جب تک پھوپھی اس کے نکاح میں ہے بھتیجی کا اس سے نکاح جائز نہیں لیکن پھوپھی کی طلاق اور عدت گزرنے کے بعد یا وفات کے بعد بھتیجی سے نکاح جائز ہے، یہی وجہ ہے کہ ان سے بھی پردے کا حکم ہے اور ان سے بے تکلف ہونا، ہنسی مذ اق وغیرہ کرنا یا ان کے سامنے بے پردہ آنا ہرگز جائز نہیں ہے۔
صحیح مسلم شریف میں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا یحل لامرأۃ تؤمن باللہ والیوم الآخر أن تسافر سفرا یکون ثلاثۃ أیام فصاعدا إلا و معہا أبوہا أو ابنہا أو زوجہا أو أخوہا أو ذو محرم منہا
ترجمہ: اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ تین دن یا اس سے زیادہ کا سفر کرے جبکہ اس کے ساتھ اس کا باپ، بیٹا، شوہر، بھائی یا محرم نہ ہو۔ (صحیح مسلم، جلد 2، صفحہ 977، حدیث: 1340، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
سفر ایک دن کا ہو یا تین دن کا، جیسا کہ تبیین الحقائق، البحر الرائق اور رد المحتار میں ہے:
و اللفظ للاخیر: روی عن ابی حنیفۃ و أبی یوسف کراھۃ خروجھا وحدھا مسیرۃ یوم واحد و ینبغی ان یکون الفتوی علیہ لفساد الزمان
ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ عورت کو ایک دن کا سفر بھی اکیلے کرنا مکروہ ہے اور زمانے کے فساد کی وجہ سے فتوی اسی پر ہونا چاہئے۔ (رد المحتار، جلد 3، صفحہ 533، مطبوعہ: کوئٹہ)
فتاوی رضویہ میں ہے ”حج کی فرضیت میں عورت مرد کا ایک حکم ہے۔۔۔ عورت میں اتنی بات زیادہ ہے کہ اُسے بغیر شوہر یا محرم کے ساتھ لیے، سفر کوجانا حرام، اس میں کچھ حج کی خصوصیت نہیں، کہیں ایک دن کے راستہ پر بے شوہر یا محرم جائے گی تو گنہ گار ہوگی۔ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 657، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں: ”جیٹھ، دیور، بہنوئی، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد، پھپی زاد، خالہ زاد بھائی سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں، بلکہ ان کا ضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا، اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعۃً میل نہیں کھا سکتی، اور ان سے لحاظ ٹوٹا ہوتاہے لہٰذا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا، ایک صحابی انصاری نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا:
الحمو الموت، رواہ الاحمد و البخاری عن عقبۃ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ
(جیٹھ دیور تو موت ہیں۔)“ (فتاوی رضویہ، جلد 22، صفحہ 217، طبع: رضافاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4286
تاریخ اجراء: 07 ربیع الآخر 1447ھ / 01 اکتوبر 2025ء