
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل بعض خواتین مصنوعی پلکیں (Artificial Eyelashes) لگواتی ہیں جو چھ یا سات مہینے کے لیے چپکی رہتی ہیں۔ اسی طرح مصنوعی ابرو (Artificial Eyebrows) بھی بنوائی جاتی ہیں۔ کیا یہ شرعاً جائز ہے؟ اور کیا ان کے لگے رہنے کے ساتھ وضو و غسل ہوجائے گا اور نماز ہوجا ئے گی؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
مصنوعی پلکیں اگر سیمی پرمننٹ یا لانگ لاسٹنگ ہوں، یعنی چند ہفتوں یا مہینوں کے لیے مضبوط گلو سے لگائی گئی ہوں تو چونکہ یہ وضو اور غسل میں اصل پلکوں کے ہر بال تک پانی پہنچنے سےرکاوٹ بنتی ہیں جبکہ وضو و غسل میں اصل پلکوں کے ہر بال کو دھونا فرض ہے۔ اور ایسی پلکوں کو خود سے آسانی سے اتارنا ممکن بھی نہیں ہوتا، لہذا ایسی پلکیں لگانا ہی شرعاً جائز نہیں کہ یہ جان بوجھ کر ایسی حالت پیدا کرنا ہے جو کہ وضو و غسل کو اپنی شرائط کے ساتھ پورا کرنے میں رکاوٹ بنے گی اور یہ ناجائز و گناہ ہے۔ البتہ اگر کوئی لگا بیٹھے تو اتارنے میں شدیدمشقت کے باعث اس کے ساتھ ہی وضو، غسل اور نماز ہو جائے گی، مگر گناہ ضرور ہوگا۔
اس کے برعکس وہ پلکیں جو صرف چند گھنٹوں یا ایک آدھ دن کے لیے لگائی جاتی ہیں اور آسانی سے اتاری بھی جا سکتی ہیں، تو اگر انسانی یا خنزیر کے بالوں سے نہ بنی ہوں تو زینت کے لیے عورت کو لگانا جائز ہے۔ تاہم چونکہ یہ بھی پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ ہیں، اس لیے وضو اور غسل سے پہلے اتارنا ضروری ہوگا، ورنہ وضو وغسل درست نہیں ہوگا اور نماز نہیں ہوگی۔ ہاں وضو یا غسل پہلے کر کے پھر اُنہیں لگا کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
مصنوعی ابرؤوں کے ساتھ وضو و غسل اور نماز کا شرعی حکم:
مصنوعی ابرؤوں (Artificial Eyebrows) کے کئی طریقے رائج ہیں، جن میں بعض جائز اور بعض ناجائز ہیں۔ ان سب کی تفصیل اور حکم شرعی درج ذیل ہے:
Microblading (1) (مائیکروبلیڈنگ): ایک نیم مستقل طریقۂ کار ہے، اس میں کئی باریک سوئیوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا ہینڈ ٹول استعمال کیا جاتا ہے جس سے ابرو کے حصے پر باریک باریک خراشیں ڈال کراُن میں رنگ بھر ا جاتا ہے، جو قدرتی بالوں کی مانند دکھائی دیتاہے۔ یہ طریقہ ٹیٹو بنوانے کی طرح ہے، بلکہ اس کو Eyebrows Tattoo بھی کہا جاتا ہے، یہ شرعاً ناجائز وگناہ ہےاور حدیث پاک میں اس پر لعنت کی گئی ہے۔ البتہ اگر کسی نے کروالیا تو اس کے لگے رہنے کی صورت میں وضو و غسل نہیں ہو گا، بلکہ اسے اتار کر پانی بہانا ہو گا، بشرطیکہ اس کو اتارنا ممکن ہوورنہ اگر اتارنا ممکن نہ ہو یا اتارنے میں شدید مشقت ہو، تو اتارے بغیر بھی وضو و غسل ہو جائے گا، مگر یہ عمل بہرحال گناہ ہوگا۔
Eyebrow Transplant (2) (بالوں کی پیوندکاری): اس طریقہ کار میں سر کے کسی حصےعموماگردن کے پچھلے حصے،یا کان کے آس پاس سے بالوں کے گرافٹس (یعنی بالوں کی جڑوں سمیت چھوٹے ٹکڑے) نکالے جاتے ہیں۔ پھر چھوٹی سوئی، یا بہت باریک بلیڈ سے ابرو کے مخصوص حصے میں باریک باریک سوراخ کرکے گرافٹس کو ابرو کے مطلوبہ حصے میں پیوند کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ بھی شرعاً جائز نہیں کیونکہ اپنے بالوں یا کسی دوسرے انسان کے بالوں سے پیوند کاری کرنا، ناجائزو حرام اور گناہ ہے کہ یہ دھوکہ، اللہ عزوجل کی بنائی ہوئی تخلیق میں غیر شرعی تبدیلی کرنا ہے اور یہ تمام امور ناجائز وحرام ہیں۔ حدیث پاک میں انسانی بال لگانے اور لگوانے پر لعنت بھی آئی ہے ۔البتہ اس صورت میں وضو وغسل ہوجائے گا اور نماز بھی ہوجائے گی، مگر عمل گناہ ہے۔
Eyebrow Stickers / Wigs (3) (چپکنے والی نقلی ابرو): اس طریقہ کار میں مصنوعی ابرو ایک اسٹیکر میں ہوتا ہے جس کو ابرو کے حصے پر کچھ دیر رکھ کر پھر اسٹیکر کو اتار لیا جاتا ہے اور مصنوعی ابرو وہاں چپک جاتے ہیں۔ یونہی وِگ والی نقلی ابرو لگا نے سے پہلے ابرو کے حصے پرگلو لگا کر اس کے اوپر نقلی ابرو کو چپکادیا جاتا ہے۔ اس کا حکم شرعی یہ ہے کہ اگر انسان یا خنزیر کے بال نہ ہوں تو ان کا لگانا جائز ہے، بشرطیکہ قدرتی بال نہ کاٹے جائیں۔ البتہ چونکہ یہ مصنوعی ابرواسٹیکر یا گوند سے چپکتے ہیں اور اصل بال یا کھال تک پانی نہیں پہنچتا، اور ان کو اتارنا بآسانی ممکن بھی ہوتا ہے، لہذا ان کو وضو و غسل سے پہلے اتارنا ضروری ہے، ہاں اگر پہلے ہی وضو یا غسل کر کے پھر یہ لگائے جائیں تو نماز ہو جائے گی۔
Eyebrow Pencil / Powder (4) (قلم یا پاؤڈر سے ابرو کے حصے میں رنگ بھرنا): یہ ایک عارضی طریقہ ہے۔ اس میں قلم یا مارکر سے ابرو کی خالی جگہ میں رنگدار مواد بھرا جاتا ہے، جو کہ اصل بالوں کی مانند دکھائی دیتا ہے، یہ شرعاً جائز ہے جبکہ اس میں کوئی ممنوع چیز کی ملاوٹ نہ ہو اور اگر سفید بال ہوں تو ان کو سیاہ کرنا نہ پایا جائے۔ البتہ اگر یہ رنگ ایسا ہو کہ جس کی تہہ جم جاتی ہو اور جسم تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہو، تو اس کے ساتھ وضو و غسل نہیں ہو گا، اُسے اتار کر پانی بہانا لازم ہو گا، ہاں اگر لگانے سے پہلے وضو یا غسل کرلیا اور پھر نماز پڑھی تو نماز ہوجائے گا۔ اور اگر اس کو اتارنا ممکن نہ ہو، یا اس میں شدید حرج واقع ہو، تو حرج کی وجہ سے اس کو اتارے بغیر بھی وضو و غسل ہو جائے گا اور نماز ہوجائے گی مگر جان بوجھ کر یہ حالت اختیار کرنا گناہ ہوگا۔
اب بالترتیب مذکورہ احکام پر جزئیات ملاحظہ کیجئے:
انسان اور خنزیر کے علاوہ مصنوعی پلکیں یا ابرو لگانے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، چنانچہ فتاوٰی عالمگیری میں ہے:”لا بأس للمرأۃ ان تجعل فی قرونھا و ذوائبھا شیئا من الوبر“ترجمہ: عورت کو اپنے گیسوؤں اور چوٹیوں میں اونٹ یا خرگوش وغیرہ کے بال لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 5، صفحہ 358،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
تغییر خلق اللہ کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ
ترجمہ کنز العرفان: اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تویہ اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزیں بدل دیں گے۔ (پار 5، سورۃ نساء: 119)
مذکورہ آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے: ’’جسم کو گود کر سرمہ یا سیندر وغیرہ جلد میں پیوست کر کے نقش و نگار بنانا، بالوں میں بال جوڑ کر بڑی بڑی جٹیں بنانا بھی اس میں داخل ہے‘‘۔ (تفسیر خزائن العرفان، تحت الایۃ: 119، صفحہ 190، مکتبۃ المدینۃ کراچی)
جسم گودنے اور گدوانے والیوں پر لعنت کی گئی ہے، چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیث مبارکہ ہے:
عن ابن مسعود رضي اللہ عنه قال: «لعن اللہ الواشمات و المستوشمات، و المتنمصات و المتفلجات للحسن، المغيرات خلق اللہ
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی نےلعنت فرمائی ہے گودنے والیوں پر اور گودوانے والیوں پر اور بال نوچوانے والیوں پر اور خوبصورتی کے لئے دانتوں میں کھڑکیاں بنانے والیوں پر جو اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو بدلنے والیا ں ہیں۔ (صحیح البخاری، جلد 7، صفحہ 167، رقم الحدیث: 5943، دار طوق النجاۃ)
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:
(الواشمات) جمع واشمۃ من الوشم، و ھو غرز ابرۃ أو مسلۃ ونحوھما، فی ظھر الکف أو المعصم أو الشفۃ وغیر ذلک من بدن المراۃ حتی یسیل منہ الدم، ثم یحشی ذلک الموضع بکحل أو نورۃ أو نیلۃ
ترجمہ: ’’الواشمات‘‘، ’’واشمہ‘‘ کی جمع ہےجو کہ ’’وشم‘‘ سے ہے یعنی کہ سوئی یا نوک دار چیز یا اس جیسی کسی چیز سے عورت کے ہاتھ کی پُشت، کلائی، ہونٹ یا جسم کے کسی اور حصے میں اس طرح سوراخ کیا جائے کہ اس سے خون نکلے، پھر اس جگہ کو سرمہ، پاؤڈر یا نیل سے بھرا جائے۔ (عمدۃ القاری، جلد 19، صفحہ 225،دار إحياء التراث العربي، بيروت)
فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:
قال الطبری لا یجوز للمراۃ تغییر شئی من خلقتھا التی خلقھا اللہ علیھا بزیادۃ او نقص التماس الحسن لا للزوج لا لغیرہ
ترجمہ: امام طبری نے فرمایا کہ عورت کیلئے جائز نہیں کہ وہ اپنی پیدائشی خلقت میں کوئی تبدیلی کرے جس میں اسے اللہ عزوجل نے پیدا کیا ہے، خواہ زیادتی کرکے یا کمی کرکےکہ وہ اس سے حسن حاصل کرنا چاہتی ہو، نہ شوہر کے لیے اس کی اجازت ہے، نہ کسی اور کے لیے۔ (فتح الباری، جلد 10، باب المتنمصات، صفحہ 377، دار المعرفۃ، بیروت)
اپنے یا دوسرے کے انسانی بال لگانے اور لگوانے پر لعنت کی گئی ہے، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ ہے:
عن أسماء بنت أبي بكر، قالت: جاءت امرأة إلى النبي صلى اللہ عليه وسلم، فقالت: يا رسول اللہ إن لي ابنة عريسا أصابتها حصبة فتمرق شعرها أفأصله، فقال: «لعن اللہ الواصلة و المستوصلة»
ترجمہ: حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری ایک بیٹی دلہن ہے، اسے خسرہ ہوگیا تھا جس سے اس کے بال جھڑ گئے، کیا میں اس کے بال جوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بال جوڑنے والی اور بال جُڑوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (صحیح مسلم، جلد 3، صفحہ 1676، رقم الحدیث: 115 - (2122)، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مراۃ المناجیح میں لکھتے ہیں: ”واصلہ وہ عورت جو اپنے سر کے بالوں میں دوسری عورت کے بال ملا کر دراز کرے۔ مستوصلہ وہ عورت جودوسری کے سر میں یہ بال جوڑے یا جو اپنے سر کے بال کاٹ کر اسے دے ملانے کے لیے یہ دونوں کام حرام ہیں جن پرلعنت فرمائی گئی۔۔۔ حرام کام فاعل و مفعول دونوں کی لعنت کا باعث ہوتا ہے۔خیال رہے کہ اگر بالوں میں دھاگہ لگا کر انہیں دراز کرلیا جاوے تو جائز ہے جسے موباف کہتے ہیں‘‘۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 146، نعیمی کتب خانہ، گجرات)
در مختار میں ہے:
وصل الشعر بشعر الاٰدمی حرام سواء کان شعرھا أو شعر غیرھا
ترجمہ: (انسانی) بالوں کو کسی انسان کے بالوں میں لگانا حرام ہے، چاہے وہ اس کے اپنے بال ہوں یا کسی اور کے۔
در مختار کی اس عبارت
سواء كان شعرها أو شعر غيرها
کے تحت رد المحتار میں ہے:
لما فيه من التزوير كما يظهر مما يأتي و في شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضا
ترجمہ: کیونکہ اس میں دھوکہ دہی ہے، جیسا کہ آگے ظاہر ہوگا، اور کسی اور کے بالوں میں تو آدمی کے ایک حصے سے فائدہ اٹھانا بھی ہے۔ (درمختار مع رد المحتار، جلد 9، صفحہ 614، 615، دار المعرفۃ، بیروت)
پلکوں کے ہر بال کا دھونا وضو و غسل میں فرض ہے، چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں: ’’پلک کا ہر بال پو را (دھونا فرض ہے)۔ بعض اوقات کیچڑ وغیرہ سخت ہو کر جم جاتا ہے کہ اس کے نیچے پانی نہیں بہتا، اس کا چھڑانا ضرور ہے۔“ (فتاوٰی رضویہ، جلد 1، حصہ دوم، صفحہ 598، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ابرو کے بالوں کا وضو وغسل میں جبکہ اس کے نیچے کی کھال کا دھونا غسل میں مطلقاً جبکہ وضو میں بال گھنے نہ ہونے کی صورت میں فرض ہے، چنانچہ فتاوی رضویہ ہی میں ہے: ’’بھوؤں، مونچھوں، بچّی کے (بال اور اس کے) نیچے کی کھال جب کہ بال چھدرے ہوں کھال نظر آتی ہو وضو میں دھونا فرض ہے، ہاں گھنے ہوں کہ کھال بالکل نہ دکھائی دے تو وضو میں ضرور نہیں، غسل میں جب بھی ضرور ہے۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 1، صفحہ 282، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
جن مصنوعی پلکوں اور ابرؤوں کو بآسانی اتارنا ممکن ہو، تو اُنہیں بغیر اتارے وضو و غسل نہ ہوگا، چنانچہ فتح القدیر اور فتاوی عالمگیری میں ہے:
و اللفظ للاول: و لو لزق بأصل ظفرہ طین یابس و نحوہ أو بقی قدر رأس الإبرۃ من موضع الغسل لم یجز
ترجمہ: اگر اس کے ناخن کے اوپر خشک مٹی یا اس کی مثل کوئی اور چیز چپک گئی یا دھونے والی جگہ پر سوئی کے ناکے کے برابر باقی رہ گئی تو جائز نہیں ہے( یعنی غسل اور وضو نہیں ہو گا)۔ (فتح القدیر مع الھدایہ، جلد 1، صفحہ 13، مطبوعہ کوئٹہ)
منیۃ المصلی میں ہے:
و ذکر فی المحیط إذا کان علی ظاھر بدنہ جلد سمک أو خبز ممضوغ قد جف و اغتسل أو توضأ و لم یصل الماء إلیٰ ما تحتہ لم یجز
ترجمہ: محیط میں ذکر کیا ہے کہ اگر کسی آدمی کے جسم پر مچھلی کی جلد یا چبائی ہوئی روٹی لگی ہے اور خشک ہو چکی ہے اس حالت میں اس نے غسل یا وضو کیا اور پانی اس کے نیچے جسم تک نہیں پہنچا تو غسل اور وضو نہیں ہو گا۔ (منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی، جلد 1، صفحہ 103، مطبوعہ کوئٹہ)
ابرو کا رَنگ جرم دار ہو اور پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہو تو وضو و غسل نہیں ہوگا، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے:
و الخضاب اذا تجسد ویبس یمنع تمام الوضوء والغسل کذا فی السراج الوھاج
ترجمہ: خضاب جب جرم دار ہو اور خشک ہوجائے تووہ وضو و غسل کی ادائیگی میں رکاوٹ ہوگا اسی طرح سراج الوہاج میں ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 1، باب الوضوء، صفحہ 6، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
جن مصنوعی پلکوں یا ابرؤوں کو یا جس جرم دار رنگ کو اتارنے میں مشقت و حرج ہو، تو اسے اتارے بغیر بھی وضو وغسل ہوجائے گا، چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں: ”حرج کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو جیسے آنکھ کے اندر۔ دوم مشقت ہو جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔ سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر ومشقت تو نہیں مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے جیسے مکھی مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔ (فتاوی رضویہ، جلد 1، حصہ دوم، صفحہ 610، 611، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اپنے ارادے سے ایسی حالت پیدا کرنا، جو وضو و غسل، اور فرض یا واجب عبادت کو اپنی شرائط کے ساتھ پورا کرنے میں رکاوٹ بنے، ناجائز و گناہ ہے، جیسا کہ ایک مسئلے سے متعلق سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”اگر حقہ سے منہ کی بو متغیر ہو، بے کلی کئے منہ صاف کئے مسجد میں جانے کی اجازت نہیں۔۔ مگر جو حقہ ایسا کثیف و بے اہتمام ہو کہ معاذ اللہ تغیرِ باقی پیدا کرے کہ وقتِ جماعت تک بو زائل نہ ہو، تو قربِ جماعت میں اس کا پینا شرعاً ناجائز کہ اب وہ ترکِ جماعت و ترکِ سجدہ یا بدبو کے ساتھ دخولِ مسجد کا موجب ہو گا اور یہ ممنوع و ناجائز ہیں اور ہر مباح فی نفسہ کہ امرِ ممنوع کی طرف مؤدی ہو، ممنوع و ناروا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 25، صفحہ 94، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-850
تاریخ اجراء: 12 صفر المظفر 1447ھ / 07 اگست 2025ء