کیا پردہ رشتہ ہونے میں رکاوٹ ہے؟

کیا پردہ رشتہ طے ہونے میں رکاوٹ بنتا ہے؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

جو لڑکی پردہ شروع کر دے اس کے رشتے نہیں ہوتے، اب انسان کیا کرے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

یہ سوچ غلط ہے، اگر شادی ہونا مقدرمیں ہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر مقدر میں نہیں تو کوئی کروا نہیں سکتا، اسی طرح جہاں ہونا مقدر میں ہے، وہیں ہوگی، دوسری جگہ نہیں ہوسکتی خواہ پردہ کریں یانہ کریں۔ اپنے معاشرے میں نگاہ دوڑائیں کہ کیا پردے والیوں کی شادیا ں نہیں ہوتیں اور کیا ایسا نہیں ہوتا کہ کئی بے پردہ لڑکیاں بغیرشادی کے موت کے گھاٹ اترجاتی ہیں، کتنے خاندان ہیں جو باپردہ سے شادی کوہی پسند کرتے ہیں۔ پھریہ دیکھیے! پردہ کرنا اللہ تعالی اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا محبوب عمل اور ان کا حکم ہے، اور بے پردگی ان کو ناپسند اور ان کے حکم کی خلاف ورزی ہے، توکیا اگر اللہ تعالی کی نافرمانی کی جائے تب تو شادی ہو جائے گی لیکن اللہ تعالی کے حکم پر عمل کیا جائے تب شادی نہیں ہوگی؟

اس بات کو اِس عبرت آموز حِکایت سے سمجھنے کی کوشِش کیجئے۔ حضرتِ امام سفیان ثوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکام کی نوکری سے منع فرمایا کیوں کہ حکام کا درباری بننے میں ظلم و گناہ سے بچنا دشوار ہوتا ہے۔ یہ سن کر اُس نے کہا: بال بچوں کو کیا کروں! فرمایا: ذرا سُنو! یہ شخص کہتا ہے کہ میں خدا عزوجل کی نافرمانی کروں جب تو (وہ) میرے اہل و عیال کو رِزْق پہنچائے گا (اور اگر) اطاعت کروں تو بے رُوز گار ہی چھوڑ دے گا۔ (حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء، جلد6، صفحہ380، مطبعۃ السعادۃ، مصر)

 مذکورہ بالا حکایت سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ بندے کو ہر صورت میں اپنے مالک و خالق کی فرمانبرداری پیش نظر رکھنی چاہیے، جو مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا، بلکہ رب کریم کی اطاعت کی برکت سے رزق اور رشتوں وغیرہ معاملات میں بھی اللہ کریم کی رحمت و نصرت شامل حال ہوتی ہے، لہذا عورتوں کو چاہئے شرعی پردہ ہرگز نہ چھوڑیں، چاہے کتنی ہی سخت آزمائش آن پڑے، اللہ کریم شہزادئ کونَین، بی بی فاطِمہ اور امُّ المؤمنین بی بی عائشہ رضی تعالیٰ عنہما کے صدقے آسانی فرما دے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابو بکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4273

تاریخ اجراء: 05ربیع الثانی1447 ھ/29ستمبر 2520 ء