
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میری بیوی حاملہ ہے، ان کو اندرونی کمزوری کی وجہ سے ڈاکٹر نے کرسی پر نماز ادا کرنے کا کہا ہے۔ کیا وہ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتی ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں محض کمزوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، بلکہ جن نمازوں میں قیام فرض ہے یعنی فرض، واجب اور فجر کی سنتیں، انہیں کھڑے ہو کر ہی ادا کرنا ہوگا، ہاں اگر پورا قیام کرنے میں نقصان کا غالب گمان ہو یا کمزوری وغیرہ کی وجہ سے پورا قیام ہو نہیں پاتا تو جتنے پر قدرت ہے اتنا کرنا ہوگا، یہاں تک کہ اگر صرف تکبیر تحریمہ کھڑے ہو کر کہہ سکتی ہیں تو کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہیں پھر بیٹھ جائیں، یوں ہی اگر خود سے کھڑے ہونے کی طاقت نہیں مگر دیوار وغیرہ کے سہارے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہونا ممکن ہے تو ایسا ہی کرنے کا حکم ہوگا ورنہ ان کی نماز نہ ہوگی، البتہ اگر کھڑے ہونے کی بالکل طاقت نہ رہے تو بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی رخصت ہے، مگر یہ بیٹھنا بھی زمین پر ہوگا نہ کہ کرسی وغیرہ پر؛ کیونکہ جب تک زمین پر یا زمین پر موجود زیادہ سے زیادہ زمین سے 12 انگل (9 انچ) اونچی کسی سخت چیز پر سجدہ کرنے کی طاقت ہو، تب تک زمین پر یا اس چیز پر باقاعدہ سجدہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اس کی بجائے اشارے سے نماز پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔ ہاں اگر اس طرح حقیقی سجدہ کرنے سے ہی عاجز آ جائیں تو سجدہ اور قیام دونوں ساقط ہو جائیں گے، اس صورت میں کرسی پر بیٹھ کر اشارے سے نماز ادا کرنا جائز ہوگا۔ البتہ یاد رہے! اشارے سے نماز پڑھنے میں سجدے کے لیے رکوع سے زیادہ سر جھکانا ضروری ہے ورنہ سجدہ ادا نہ ہوگا، جس کے باعث نماز بھی نہیں ہوگی۔
صحیح بخاری، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، سنن الکبری للبیہقی اور مشکوۃ المصابیح وغیرہ میں ہے:
عن عمران بن حصين رضي اللہ عنه قال: كانت بي بواسير، فسألت النبي صلى اللہ عليه وسلم عن الصلاة، فقال: صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جنب
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم سے (اس مرض میں) نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر تمہیں اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر پڑھو۔ (صحيح البخاري، أبواب تقصير الصلاة، جلد 1، صفحه 376، حدیث 1066، دار ابن كثير دمشق)
علامہ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (المتوفى: 855ھ/1451ء) اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:
و بهذا الحديث استدل أصحابنا أن المريض إذا عجز عن القيام صلى قاعدا يركع ويسجد، فإن لم يستطع الركوع و السجود أومأ إيماء قاعدا، وجعل سجوده أخفض من ركوعه ... وأما كيفية القعود فيما إذا صلى قاعدا فبحسب طاقته وتمكنه. اختلف أصحابنا في حد المرض الذي يبيح الصلاة قاعدا...وأصح الأقاويل: أن يلحقه ضرر بالقيام، وإذا كان قادرا على بعض القيام دون تمامه كيف يصنع؟ قال الفقيه أبو جعفر: يؤمر بأن يقوم مقدار ما يقدر، فإذا عجز قعد، حتى إذا كان قادرا على أن يكبر قائما ولا يقدر على القيام للقراءة، أو قادرا على القيام ببعض القراءة دون تمامها، قالوا: يؤمر بأن يكبر قائما ويقرأ ما يقدر عليه قائما، ثم يقعد إذا عجز. وبه أخذ شمس الأئمة الحلواني
ترجمہ: اور اسی حدیث سے ہمارے فقہائے احناف نے استدلال کیا ہے کہ مریض جب قیام (کھڑے ہو کر نماز پڑھنے) سے عاجز ہو جائے تو بیٹھ کر رکوع و سجود کرتے ہوئے نماز ادا کرے، پس اگر رکوع و سجود کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے اور اپنے سجدے کو رکوع سے زیادہ پست کرے۔ اور رہا بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں بیٹھنے کا طریقہ تو وہ اس کی طاقت اور قدرت کے مطابق ہوگا۔ ہمارے فقہا کا اس مرض کی حد میں اختلاف ہے جو بیٹھ کر نماز پڑھنے کو جائز کرتا ہے، اور صحیح تر قول یہ ہے کہ قیام کے ساتھ نماز پڑھنے میں ضرر لاحق ہو (تو بیٹھ کر نماز پڑھنے کی رخصت ہوگی)۔ اور اگر وہ شخص قیام کے کچھ حصے پر قادر ہو نہ کہ مکمل پر تو وہ کیا کرے؟ فقیہ ابو جعفر نے فرمایا: اس کو حکم دیا جائے گا کہ جتنے قیام پر قادر ہو، اتنا قیام کرے، پھر جب عاجز ہو جائے تو بیٹھ جائے، یہاں تک کہ اگر وہ (محض) کھڑے ہو کر تکبیرِ تحریمہ کہنے پر قادر ہو اور قراءت کے لیے کھڑے رہنے پر نہیں، یا قراءت کے کچھ حصے کے ساتھ کھڑے ہونے پر قادر ہو مگر مکمل پر نہیں، تو فقہائے کرام نے فرمایا: اسے حکم دیا جائے گا کہ کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہے اور جتنی قراءت کھڑے ہو کر کرنے پر قادر ہے کرے، پھر جب عاجز آ جائے تو بیٹھ جائے، اور اسی کو شمس الآئمہ امام حلوانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اختیار کیا۔ (شرح سنن أبي داود للعيني، کتاب الصلاۃ، باب في صلاة القاعد، جلد 4، صفحه 225- 226، مطبوعه ریاض)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”آج کل بہت جہال ذرا سی بے طاقتیِ مرض یا کبر سن میں سرے سے بیٹھ کر فرض پڑھتے ہیں، حالانکہ اولاً: ان میں بہت ایسے ہیں کہ ہمت کریں تو پورے فرض کھڑے ہو کر ادا کر سکتے ہیں، اور اس ادا سے نہ ان کا مرض بڑھے نہ کوئی نیا مرض لاحق ہو نہ گر پڑنے کی حالت ہو نہ دوران سر (چکر آنا) وغیرہ کوئی سخت الم شدید ہو، صرف ایک گونہ مشقت و تکلیف ہے جس سے بچنے کو صراحۃً نمازیں کھوتے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہی لوگ جنہوں نے بحیلۂ ضعف و مرض فرض بیٹھ کر پڑھے اور وہی باتوں میں اتنی دیر کھڑے رہے کہ اُتنی دیر میں دس بارہ رکعت ادا کر لیتے، ایسی حالت میں ہر گز قعود کی اجازت نہیں، بلکہ فرض ہے کہ پورے فرض قیام سے ادا کریں۔ کافی شرح وافی میں ہے:
ان لحقہ نوع مشقۃ لم یجز ترک القیام
(اگر اسے کچھ مشقت لاحق ہو تو قیام ترک کرنا جائز نہ ہوگا)۔"ثانیاً: مانا کہ انہیں اپنے تجربہ سابقہ، خواہ کسی طبیب مسلمان حاذق عادل مستور الحال غیر ظاہر الفسق کے اخبار، خواہ اپنے ظاہر حال کے نظر صحیح سے جو کم ہمتی و آرام طلبی پر مبنی نہ ہو، بظن غالب معلوم ہے کہ قیام سے کوئی مرض جدید یا مرض موجود شدید و مدید ہوگا، مگر یہ بات طول قیام میں ہوگی، تھوڑی دیر کھڑے ہونے کی یقیناً طاقت رکھتے ہیں تو ان پر فرض تھا کہ جتنے قیام کی طاقت تھی اتنا ادا کرتے، یہاں تک کہ اگر صرف اللہ اکبر کھڑے ہو کر کہہ سکتے تھے تو اتنا ہی قیام میں ادا کرتے، جب وہ غلبۂ ظن کی حالت پیش آتی تو بیٹھ جاتے، یہ ابتدا سے بیٹھ کر پڑھنا اب بھی ان کی نماز کا مفسد ہوا۔ ثالثاً: ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ بقدر تکبیر بھی کھڑے ہونے کی قوت نہیں رکھتا مگر عصا کے سہارے سے یا کسی آدمی خواہ دیوار پر تکیہ لگا کر کل یا بعض قیام پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے کہ جتنا قیام اس سہارے یا تکیہ کے ذریعے سے کر سکے بجا لائے، کل تو کل یا بعض تو بعض، ورنہ صحیح مذہب میں اس کی نماز نہ ہوگی۔ ... یہ سب مسائل خوب سمجھ لیے جائیں، باقی اس مسئلہ کی تفصیل تام و تحقیق ہمارے فتاوی میں ہے جس پر اطلاع نہایت ضرور و اہم کہ آج کل نا واقفی سے جاہل تو جاہل بعض مدعیانِ علم بھی ان احکام کا خلاف کر کے ناحق اپنی نمازیں کھوتے اور صراحۃً مرتکب گناہ و تارک صلوۃ ہوتے ہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحه 160- 161، رضا فاؤنڈیشن لاهور)
فقیہِ ملت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1423ھ / 2001ء) لکھتے ہیں: ”فرض، وتر، عیدین اور سنت فجر میں قیام فرض ہے یعنی بلا عذر صحیح یہ نمازیں بیٹھ کر پڑھی گئیں تو نہ ہوں گی۔... اور یہ حکم مردوں کے لیے خاص نہیں ہے یعنی جس طرح نماز میں قیام مردوں کے لیے فرض ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی فرض ہے لہذا فرض و واجب تمام نمازیں جن میں قیام ضروری ہے بغیر عذر صحیح بیٹھ کر نہیں ہو سکتیں۔ جتنی نمازیں باوجود قدرت قیام بیٹھ کر پڑھی گئیں ان سب کی قضا پڑھنا اور توبہ کرنا فرض ہے۔ اگر قضا نہیں پڑھیں گی اور توبہ نہیں کریں گی تو سخت گنہگار مستحق عذاب نار ہوں گی۔ ہاں نفل نمازیں بیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہیں۔“ (فتاوی فیض الرسول، جلد 1، صفحہ 239 - 240، اکبر بک سیلرز لاہور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367ھ / 1948ء) لکھتے ہیں: ”جو شخص بوجہ بیماری کے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر قادر نہیں کہ کھڑے ہو کر پڑھنے سے ضرر لاحق ہوگا یا مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہو گا یا چکر آتا ہے یا کھڑے ہو کر پڑھنے سے قطرہ آئے گا یا بہت شدید درد ناقابل برداشت پیدا ہو جائے گا تو ان سب صورتوں میں بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھے۔... اگر کوئی اونچی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہے اس پر سجدہ کیا اور رکوع کے لیے صرف اشارہ نہ ہوا بلکہ پیٹھ بھی جھکائی تو صحیح ہے بشرطیکہ سجدہ کے شرائط پائے جائیں، مثلاً اس چیز کا سخت ہونا جس پر سجدہ کیا کہ اس قدر پیشانی دب گئی ہو کہ پھر دبانے سے نہ دبے اور اس کی اونچائی بارہ انگل سے زیادہ نہ ہو۔ ان شرائط کے پائے جانے کے بعد حقیقۃً رکوع و سجود پائے گئے، اشارہ سے پڑھنے والا اسے نہ کہیں گے اور کھڑا ہو کر پڑھنے والا اس کی اقتدا کر سکتا ہے اور یہ شخص جب اس طرح رکوع و سجود کر سکتا ہے اور قیام پر قادر ہے تو اس پر قیام فرض ہے یا اثنائے نماز میں قیام پر قادر ہو گیا تو جو باقی ہے اسے کھڑے ہو کر پڑھنا فرض ہے لہذا جو شخص زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا مگر شرائط مذکورہ کے ساتھ کوئی چیز زمین پر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے، اس پر فرض ہے کہ اسی طرح سجدہ کرے اشارہ جائز نہیں اور اگر وہ چیز جس پر سجدہ کیا ایسی نہیں تو حقیقۃً سجود نہ پایا گیا بلکہ سجدہ کے لیے اشارہ ہوا لہذا کھڑا ہونے والا اس کی اقتدا نہیں کر سکتا اور اگر یہ شخص اثنائے نماز میں قیام پر قادر ہوا تو سرے سے پڑھے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4،صفحه 720 و 722ملتقطا، مکتبة المدینہ کراچی)
آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ مزید فرماتے ہیں: ”اشارہ کی صورت میں سجدہ کا اشارہ رکوع سے پست ہونا ضروری ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ سر کو بالکل زمین سے قریب کر دے۔ سجدہ کے لیے تکیہ وغیرہ کوئی چیز پیشانی کے قریب اٹھا کراس پر سجدہ کرنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ خود اسی نے وہ چیز اٹھائی ہو یا دوسرے نے۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحه 721، مکتبة المدینہ کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-717
تاریخ اجراء: 23 شوال المکرم 1446ھ / 22 اپریل 2025ء