ناخن پر آٹا لگا ہونے کی حالت میں نماز ہوجائیگی؟

خاتون نے وضو کر کے نماز پڑھی بعد میں معلوم ہوا کہ ناخنوں میں آٹا لگا رہ گیا، تو کیا حکم ہے

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کسی خاتون نے روٹی بنائی اورپھر وضو کر کے نماز پڑھ لی، جب نماز ادا کر چکی، تو دیکھا کہ ناخن پر تھوڑا سا آٹا لگا رہ گیا ہے، اگر ہاتھ کو تھوڑی دور کر کے دیکھا جائے، تو وہ نظر بھی نہیں آرہا، قریب کرنے سے نظر آرہا ہے، تو کیا اس صورت میں پڑھی گئی نماز ادا ہو جائے گی یا دوبارہ پڑھنی ہوگی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اس خاتون کی نماز ہوگئی، ہاں نظر آنے کے بعداس کو چھڑاکراس جگہ کودھوکر اگلی نماز پڑھی جائے کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ جس کی انسان کو عموماً (جیسے جسم کا میل، مکھی، مچھر کی بیٹ وغیرہ)یا خصوصا (جیسے رنگریز کے لئے رنگ کا جرم اور لکھنے والے کے لئے روشنائی کا جرم اور آٹا گوندھنے والی خواتین کے لئے آٹا وغیرہ) ضرورت پڑتی رہتی ہے اور اس کی نگہداشت میں حرج ہے، تو ایسی چیز اگر جسم پر لگی رہ گئی اور بوقت وضوو غسل اس کاعلم نہ ہوسکا تو وضو و غسل اور نماز ہو جائے گی، ہاں معلوم ہونے پر چھڑا کر پانی بہانا ضروری ہے کیونکہ معلوم ہونے کے بعد اب حرج یا دقت نہ رہی۔

امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”حرج کی تین صورتیں ہیں: ایک یہ کہ وہاں پانی پہنچانے میں مضرت ہو، جیسے آنکھ کے اندر۔ دوم مشقت ہو، جیسے عورت کی گندھی ہوئی چوٹی۔ سوم بعد علم واطلاع کوئی ضرر و مشقت تو نہیں، مگر اس کی نگہداشت، اس کی دیکھ بھال میں دقت ہے، جیسے مکھی، مچھر کی بیٹ یا الجھا ہوا گرہ کھایا ہوا بال۔ قسم اول ودوم کی معافی توظاہر اور قسم سوم میں بعد اطلاع ازالہ مانع ضرور ہے، مثلاً جہاں مذکورہ صورتوں میں مہندی، سرمہ، آٹا، روشنائی، رنگ، بیٹ وغیرہ سے کوئی چیز جمی ہوئی دیکھ پائی، تو اب یہ نہ ہو کہ اُسے یوں ہی رہنے دے اور پانی اوپر سے بہادے، بلکہ چھڑا لےکہ آخر ازالہ میں تو کوئی حرج تھا ہی نہیں، تعاہد میں تھا، بعد اطلاع اس کی حاجت نہ رہی

و من المعلوم ان ماکان لضرورة تقدر بقدرھا

ترجمہ: اور یہ بات معلوم ہے کہ جو چیز ضرورت کی وجہ سے ثابت ہو، وہ بقدرِ ضرورت ہی ہوتی ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 455، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2277

تاریخ اجراء: 05ذوالقعدۃ الحرام1446ھ/03مئی2025ء