
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حدیث پاک میں ہے کہ ایک شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان الفاظ کے ساتھ دعا مانگتے ہوئے سنا:
”اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللّٰهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ“
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس رب کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے وسیلے سے مانگا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی گئی ہے اس نے وہ دعا قبول کی ہے اور جب بھی اس کے ذریعہ کوئی چیز مانگی گئی ہےاس نےدی ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ عورتیں مخصوص ایام میں حدیث پاک میں مذکورالفاظ (لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ) کو پڑھ سکتی ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سوال میں بیان کردہ حدیث مبارک میں آخری الفاظ (لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ) قرآن پاک کے ہیں اور دیگر آیات قرآنیہ کی طرح حرمت میں ان کا حکم بھی انہی کی مثل ہے یعنی ایسے الفاظ کو(نظمِ قرآن ہونے کی وجہ سے) مخصوص ایام اور جنابت کی حالت میں بنیتِ قرآن پڑھنا جائز نہیں۔ ہاں! چونکہ یہ الفاظ ذکر و ثناپرمشتمل ہیں، لہذا اگر انہیں ذکرو ثنا کی نیت سے پڑھنا چاہیں، توکوئی حرج نہیں مگر ان الفاظ کوچھونے کی کسی صورت اجازت نہیں۔
نوٹ: یادرہے کہ عورت کاایسے لوگوں کے سامنے جن کو اُس عورت کاحیض و نفاس والا ہونا معلوم ہو، ذکر و ثنا کی نیت سےان الفاظ کو بلند آواز سے پڑھنا مناسب نہیں، کیونکہ ایسی صورت میں اندیشہ ہے کہ کہیں وہ لوگ بحالتِ حیض و نفاس تلاوتِ قرآن کو جائز نہ سمجھ لیں، یا اگراِس حالت میں تلاوتِ قرآن کو ناجائز جانتے ہوں، تو کہیں اِس پڑھنے والی پر گناہ کی تہمت نہ لگادیں۔
حیض کی حالت میں قرآن پاک پڑھنےکی اجازت نہیں ہے، چنانچہ سنن ترمذی، سنن دارمی اورسنن ابن ماجہ میں ہے:
واللفظ للآخر: ”قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لايقرأ الجنب والحائض شيئامن القرآن“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جنبی اورحائضہ قرآن میں سےکچھ بھی نہ پڑھے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ، باب ماجاءفی قراءۃالقرآن علی غیرطہارۃ، صفحہ44، مطبوعہ کراچی)
فتاوی عالمگیری اور دیگر کتب فقہیہ میں ہے:
”ومنها حرمة قراءة القرآن لاتقرأ الحائض والنفساء والجنب شيئا من القرآن والآية ومادونها سواء فی التحريم على الاصح“
ترجمہ: اوراحکام حیض ونفاس میں سے قراءتِ قرآن کی حرمت بھی ہے، لہذا حیض و نفاس والی اور جنبی قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرسکتے، مکمل آیت ہویااس سےکم، اصح قول کےمطابق دونوں حرمت میں برابرہیں۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الطہارۃ، الباب السادس، الفصل الرابع، جلد1، صفحہ38، مطبوعہ کوئٹہ)
حیض و نفاس کی حالت میں ایسی آیات کو جو دعا و ثنا کے معنی پر مشتمل ہوں، بہ نیت دعا وثنا پڑھا جاسکتا ہے، جیسا کہ در مختار میں ہے:
”(و) يحرم به (تلاوة قرآن) و لو دون آية المختار (بقصده) فلو قصد الدعاء أو الثناء۔۔۔ حل فی الاصح“
ترجمہ: اور اس (یعنی جنبی وحائضہ) کے لیے قرآن کی نیت سے قرآن پڑھنا حرام ہے، مختار قول کے مطابق اگرچہ ایک آیت سے کم بھی پڑھے۔ اور اگر دعا اور ثنا کی نیت سے پڑھے تو اصح قول کے مطابق جائز ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 29، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”یہ معلوم رہے کہ قرآن عظیم کی وہ آیات جو ذکر و ثنا و مناجات و دعا ہوں اگرچہ پوری آیت ہو جیسے آیۃ الکرسی بلکہ متعدد آیات کاملہ جیسے سورہ حشر کی اخیر تین آیتیں ھو اللہ الذی لاالہ الا ھو عالم الغیب والشہادۃ سے آخر سورت تک، بلکہ پوری سورت جیسے الحمدللہ شریف بنیت ذکرو دعا بے نیت تلاوت پڑھنا جنب و حائض و نفسا سب کو جائز ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 1078، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
جس چیز پر آیت قرآنی لکھی ہو، اس کو ناپاکی کی حالت میں چھونا مطلقاً جائز نہیں، جیسا کہ الجوہرۃ النیرہ میں ہے:
”لا يجوز له مس شيء مكتوب فيه شيء من القرآن من لوح أو درهم أو غير ذلك إذا كان آية تامة“
یعنی جس تختی، درہم وغیرہ پر قرآن کی ایک مکمل آیت لکھی ہو، تو اُس تختی، درہم وغیرہ کو ناپاکی کی حالت میں چھونا، جائز نہیں۔ (الجوھرۃ النیرۃ، جلد01، صفحہ31، المطبعة الخيرية)
اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ” کتاب یا اخبار جس جگہ آیت لکھی ہے خاص اس جگہ کو بلا وضو ہاتھ لگانا جائز نہیں اسی جگہ ہاتھ لگایا جائے جس طرف آیت لکھی ہے خواہ اس کی پشت پر دونوں ناجائز ہیں باقی ورق کے چھونے میں حرج نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 4، صفحہ 366، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
عورت کا دعا و ثناء کی نیت سے ان آیات کو بآواز بلند پڑھنا مناسب نہیں، چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”آیۃ الکرسی یا سورہ فاتحہ اور ان کے مثل ایسی قراءت کہ سننے والا جسے قرآن سمجھے ان عوام کے سامنے جن کو اس کا جنب ہونا معلوم ہو بآوازبہ نیت ثنا و دعا بھی پڑھنا مناسب نہیں کہ کہیں وہ بحال جنابت تلاوت جائز نہ سمجھ لیں یا اس کا عدم جواز جانتے ہوں، تو اس پر گناہ کی تہمت نہ رکھیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 1، صفحہ 1079، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
فتوی نمبر: OKR-0086
تاریخ اجراء: 22 ربیع الاول 1447 ھ/ 16ستمبر 2025 ء