نفاس کا خون رک کر دوبارہ آئے تو پڑھی گئی نماز روزے کا حکم؟

نفاس کا خون کچھ دن رک کر پھر شروع ہوگیا تو بیچ کے دنوں میں پڑھی گئی نماز روزے کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ ایک عورت کو پہلے بچے کی ولادت کے بعدچند دن خون آکر رُک گیا۔ چند دن انتظار کرنے کے بعد یہ سمجھ کر کہ اب دوبارہ خون نہیں آئے گا،  اُس عورت نے غسل کرکے نمازیں پڑھنا شروع کر دیں،  چونکہ محرم کا مہینہ تھا اس لئے نفلی روزے بھی رکھنا شروع کر دیے،  لیکن چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے ،  مثلاً اکتیسویں دن دوبارہ خون آگیا اور چند دن آ کر چالیس دن کے اندر مکمل طور پر رُک گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ مذکورہ عورت نے اُس وقفہ کے دوران جو نمازیں پڑھیں اور نفلی روزے رکھے،  تو کیا وہ شرعاً درست تھے یا اُن کی قضا لازم ہے؟ نیزروزے کی حالت میں جو دوبارہ خون آیا،  تو کیا وہ روزہ ٹوٹ گیا؟اور اگر ٹوٹ گیا،  تو کیا اُس کی قضا لازم ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عورت کی نمازیں اور روزے نہیں ہوئے اور نہ ہی اُس پر ان کی قضا لازم ہے،  یونہی ایامِ نفاس میں جس نفلی روزے کے دوران نفاس کا خون آیا،  اُس کی بھی قضا لازم نہیں ہے کہ وہ روزہ شروع ہی نہیں ہوا۔

مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ بچہ کی ولادت کے بعد چالیس دن مکمل ہونے سے پہلے خون رُک جائے اور کچھ دن کے وقفہ کے بعد چالیس دن کے اندر (مثلاً اکتیسویں دن) دوبارہ خون  آ جائے،  تو شرعی طور پر بچہ کی پیدائش سے لے کر آخری خون کے بند ہونے تک کا پورا عرصہ نفاس شمار ہوگا، خواہ درمیان کے کچھ دنوں میں خون نہ آیا ہو، اس دوران عورت نے جو نماز یں ادا کیں یا روزے رکھے، تو وہ نہ ہوئے کہ یہ عبادات حالتِ نفاس میں ادا کی گئیں، جبکہ نفاس نماز و روزہ دونوں سے مانع ہے،  لہٰذا پاک ہونے کے بعد بھی ان کی قضا لازم نہیں، البتہ اگر فرض، واجب روزے ہوتے، تو شرعاً لازم ہونے کی وجہ سے ان کی قضا لازم ہوتی۔

بچہ کی ولادت کے بعدچند دن خون آکر رُک گیا،  پھر کچھ دن کے وقفہ کے بعد دوبارہ آگیا، تو یہ پورا عرصہ نفاس شمار ہوگا، چنانچہ علامہ ابو المَعَالی بخاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 616ھ/1219ء) لکھتےہیں:

”قال أبو حنيفة رحمه اللہ:  الطهر المتخلل بين الأربعين في النفاس لا يعتبر فاصلا بين الدمين، سواء كان أقل من خمسة عشر أو كان خمسة عشر أو أكثر منها، ويجعل إحاطة الدمين بطرفه كالدم المتوالي“

 ترجمہ: امام اعظم ابو حنیفہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃفرماتے ہیں: نفاس کے چالیس دنوں کے درمیان جو طہر (یعنی خون بند ہونے) کا وقفہ آتا ہے،  وہ دونوں خون کے درمیان فاصلہ نہیں سمجھا جائے گا، خواہ یہ وقفہ پندرہ دن سے کم ہو، پندرہ دن ہو، یا اس سے زیادہ ہو، اور طہر کی اطراف (ابتدا و انتہاء) والے دونوں خون کے احاطے کو جاری رہنے والے خون کے حکم میں شمار کیا جائے گا۔ (المحیط البرھانی،  جلد1،  صفحہ264،  مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ،  بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں: ”چالیس دن کے اندر کبھی خون آیا،  کبھی نہیں، تو سب نِفاس ہی ہے، اگرچہ پندرہ دن کا فاصلہ ہو جائے۔ “     (بھارِ شریعت ،  جلد1، حصہ 2،  صفحہ378، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

حالتِ نفاس میں ادا کی گئیں نمازوں اور روزے سے متعلق امام محمد بن حسن شیبانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 189ھ/804ء) لکھتے ہیں:

”قلت:  ارايت امراة نفساء ولدت اول ما ولدت فاستمر بها الدم اشهرا ، كم تدع الصلاة؟ قال: اربعين يوما۔۔۔قلت:  فان اغتسلت وصلت وصامت خمسة ايام ثم عاودها الدم خمسة ايام في الاربعين؟ قال: لا يجزيها صومها وصلاتها وعليها ان تقضي الصوم“

 ترجمہ: میں نے (امام اعظم عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ سے)عرض کی: نفاس والی اُس عورت کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جس نے پہلا بچہ جنا اور اسے کئی مہینے تک نفاس کا خون جاری رہا،  تو وہ کتنے دن نماز چھوڑے گی؟ امام اعظم عَلَیْہِ الرَّحْمَۃنے فرمایا:  چالیس دن۔۔۔میں نے عرض کی: اگر اُس نے (خون بند ہونے پر) غسل کر لیا،  پھر پانچ دن نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے،  لیکن چالیس دن کے اندر ہی اسے دوبارہ پانچ دن خون آ گیا،  تو (اس کا کیا حکم ہے)؟ فرمایا: اس دوران کی اُس عورت کی نمازیں اور روزے درست نہیں ہوئے اور اُس پر (فرض) روزے کی قضالازم ہے۔ (کتاب الاصل،  جلد1،  صفحہ294،  مطبوعہ دار ابن حزم،  بيروت)

نفاس نماز و روزہ دونوں سے مانع ہے،  جیسا کہ علامہ علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1088ھ/ 1677ء) لکھتےہیں:

”(يمنع صلاة) مطلقا ولو سجدة شكر (وصوما) وجماعا (وتقضيه) لزوما دونها للحرج“

 ترجمہ: (حیض و نفاس) مطلقاً نماز سے مانع ہیں،  اگرچہ وہ سجدۂ شکر ہی کیوں نہ ہو،  یونہی روزہ اور جماع سے بھی مانع ہیں، البتہ (فرض)روزہ کی قضا لازم ہے، لیکن نماز کی قضا نہیں کہ اس میں حرج ہے۔(الدرالمختار ،  جلد1،  صفحہ532،  مطبوعہ کوئٹہ)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ ”نفاس کی اکثر مدّت چالیس روز ہے،  کمتر کی حد نہیں۔ اگر نفاس کا پانی ہشت (8) روز میں بند ہو اور نماز اور روزہ اور وطی کے بعد پانی پھر آ یا،  اس میں کیا حکم ہے؟ تو جواباً ارشاد فرمایا: پانی کوئی چیز نہیں وہ تو رطوبت ہے۔ نفاس میں خون ہوتا ہے،  چالیس دن کے اندر جب خون عود کرے شروع ولادت سے ختم خون تک،  سب دن نفاس ہی کے گنے جائیں گے جو دن بیچ میں خالی رہ گئے وہ بھی نفاس ہی میں شمار ہوں گے،  مثلاً ولادت کے بعد دو منٹ تک خُون آکر بند ہوگیا،  عورت بگمانِ طہارت غسل کرکے نماز روزہ و غیرہ کرتی رہی، چالیس دن پُورے ہونے میں ابھی دو منٹ باقی تھے، پھر خُون آگیا،  تو یہ سارا چلّہ نفاس میں ٹھہرے گا،  نمازیں بیکار گئیں،  فرض یا واجب روزے یا ان کی قضا نمازیں جتنی پڑھی ہوں انہیں پھر پھیرے۔ (فتاویٰ رضویہ،  جلد04، صفحہ355-354، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب : مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-9425

تاریخ اجراء02 صفر المظفر1447ھ/28 جولائی2025ء