محمد الحق نام رکھنا کیسا؟

محمد الحق نام رکھنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

محمد الحق نام رکھنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

محمد الحق نام رکھنا جائز ہے۔

تفصیل یہ ہے کہ لفظِ محمد کا معنی ہے: تعریف کیا ہوا اور الحق اللہ کا صفاتی نام ہے جس کا معنی ہے وہ ذات جس کا وجود اور تحقق بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت ہے۔ یوں محمد الحق نام کا مطلب ہوگا ”حق کا تعریف کیا ہوا“جیسے محمود الحق، شریف الحق۔ ہمارے یہاں جب یہ نام رکھا جاتا ہے توعام طورپر اس سے اضافت والا معنی ہی مراد ہوتا ہے۔

تاہم !اگر کسی نے محمد حق نام اس طور پر رکھا کہ محمد تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسم شریف سے برکت لینے کے لیےاور حق اس کا خود کا نام جیسے محمد سمیع، محمد رشید وغیرہ تو یہ بھی جائز ہے کہ حق اللہ کےان ناموں میں سے نہیں ہے، جواس کے ساتھ خاص ہیں۔

نیز یہاں ایک تیسری صورت بھی ہے، وہ یہ ہے کہ محمد اسم ذات اور موصوف ہو اور الحق اس کی صفت ہو جس کا معنی ہو گا ”سچا محمد“ اس طور پر نام رکھنا بھی جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں محمد خود اس بچے کا نام ہوگا جوکہ بالکل جائز ہے اور الحق اس کی صفت ہوگی۔

فیروز اللغات میں ہے ”محمد: بہت تعریف کیا گیا۔ نہایت سراہا گیا۔ حضرت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک۔“ (فیروز اللغات، صفحہ1276، فیروز سنز، لاہور )

لفظ حق کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے

”ان الحق من اسماء اللہ تعالیٰ ۔۔۔ اسم الحق کما یطلق علی اللہ تعالی یطلق علی غیرہ“

ترجمہ: حق اللہ تعالی کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسم حق کا اطلاق جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے، اسی طرح غیر خدا پر بھی ہوتا ہے۔ (بدائع الصنائع، جلد3، صفحہ7، دار الكتب العلمية، بیروت)

موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے

”لا شك أن الحق من أسمائه تعالى الواردة في الكتاب الكريم والسنة المطهرة، غير أنه ليس من الأسماء المختصة به“

ترجمہ: اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حق، اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ہے جوکہ کتاب و سنت میں وارد ہوئے ہیں لیکن یہ ان ناموں میں سے نہیں ہے جوکہ اس کی ذات کے ساتھ خاص ہیں۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد7، صفحہ 256، مطبوعہ:  الكویت)

المعجم الوسیط میں ہے

(الحق) اسم من أسمائه تعالى والثابت بلا شك وفي التنزيل العزيز {إنه لحق مثل ما أنكم تنطقون} ويوصف به فيقال (قول حق) ويقال هو العالم حق العالم متناه في العلم وهو حق بكذا جدير به والنصيب الواجب للفرد أو الجماعة “

ترجمہ: الحق، اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام ہے، اور اس کامعنی ہے: جو بلا شک و شبہ ثابت ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:﴿اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ﴾ یقیناً یہ حق ہے، جیسے کہ تم بات کرتے ہو۔ اور اس کو بطور صفت بھی ذکر کیا جاتا ہے جیسے "قولِ حق" (سچی بات)۔ اور کہاجاتا ہے کہ ھو العالم حق العالم جس کا معنی ہے کہ وہ کامل علم والا ہے اور یوں بھی کہا جاتا ہے: وہ (شخص) حق ہے فلاں چیز کا، یعنی وہ اسے پانے کا اہل اور مستحق ہے۔اور حق کا معنی ہے: کسی فرد یا جماعت کا لازمی حصہ۔ (المعجم الوسیط، جلد1، صفحہ188، دار الدعوۃ )

المنجد میں ہے ”الحق: سچائی، راستی یقین، انصاف، ثابت شدہ حصہ، مال اور ملک، ہوشیاری، فیصل شدہ معاملہ، موت۔“ (المنجد، صفحہ168، مکتبہ قدوسیہ، لاہور)

جو اسما اللہ کریم کی ذات سے مختص نہیں ہیں، وہ نام کسی انسان کا عبد کے بغیر رکھنا بھی جائز ہے۔ انسان کا نام رکھنے کی صورت میں اسی کے مناسب معنی مراد ہوں گے۔

رد المحتار میں ہے

”الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل“

 ترجمہ: اور جو تاتارخانیہ میں سراجیہ سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ ایسا نام رکھنا جائز ہے جوکہ اللہ پاک کی کتاب میں پایا جاتا ہے جیساکہ علی، کبیر، رشید، بدیع وغیرہ اور اسی کی مثل منح الغفار میں بھی اس سے یہ منقول ہے اور اس کا ظاہر جواز ہے، اگرچہ وہ الف لام کے ساتھ معرفہ ہو۔ (رد المحتار، جلد1، صفحہ416، مطبوعہ: بیروت)

بہار شریعت میں ہے ”بعض اسماء الٰہیہ جن کا اطلاق غیرا پر جائز ہے، ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے، جیسے علی، رشید، کبیر، بدیع، کیونکہ بندوں کے ناموں میں وہ معنی مراد نہیں ہیں جن کا ارادہ اتعالیٰ پر اطلاق کرنے میں ہوتا ہے اور ان ناموں میں الف و لام ملا کر بھی نام رکھنا جائز ہے مثلاً العلی، الرشید۔ ہاں اس زمانہ میں چونکہ عوام میں ناموں کی تصغیر کرنے کا بکثرت رواج ہوگیا ہے، لہٰذا جہاں ایسا گمان ہو ایسے نام سے بچنا ہی مناسب ہے۔خصوصاً جبکہ اسماء الٰہیہ کے ساتھ عبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیا، مثلاً عبدالرحیم، عبدالکریم، عبدالعزیز کہ یہاں مضاف الیہ سے مراد ا تعالیٰ ہے اور ایسی صورت میں تصغیر اگر قصداً ہوتی تو معاذ کفر ہوتی، کیونکہ یہ اس شخص کی تصغیر نہیں بلکہ معبود برحق کی تصغیر ہے مگر عوام اور ناواقفوں کا یہ مقصد یقینا نہیں ہے، اسی لیے وہ حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اُن کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں جہاں یہ احتمال ہو۔“ (بہارِ شریعت، جلد3، حصہ 16، صفحہ602، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4424

تاریخ اجراء: 18جمادی الاولی1447 ھ/10نومبر2025 ء