
مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:UK64
تاریخ اجراء: 17رجب المرجب 1441 ھ/12 مارچ 2020 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل کرونا وائرس کی وجہ سے کافی لوگ سینی ٹائزر (sanitizer) استعمال کرنا شروع ہو گئے ہیں۔sanitizer ایک لیکوڈ(liquid) ہوتا ہے جو ہاتھوں پر لگایا جاتا ہے تاکہ ہاتھوں پر موجود بیکٹیریا اور جراثیم ختم ہو جائیں۔اگرچہ ایسے sanitizer بھی ملتے ہیں جن میں الکحل نہیں ہوتی لیکن اکثراچھے sanitizers میں 60%یا زیادہ الکحل شامل ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کایوں ہاتھوں پر استعمال شرعاجائز ہے؟سائل:علی رشید عطاری(لندن)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگرچہ زیادہ بہتر یہی ہے کہ Non-Alcoholic Sanitizersیعنی ایسے سینی ٹائزرز کا استعمال کیا جائے جس میں الکحل نہ ہو لیکن فی زمانہ الکحل والے سینی ٹائزرز (Alcoholic Sanitizers) کواستعمال کرنا یعنی ہاتھوں اور جسم وغیرہ پر لگانا شرعی طور پرجائز ہے۔
تفصیل کچھ یوں ہے کہ الکحل بھی ایک قسم کی شراب اور نشہ آور مائع (liquid)ہے۔عام طور پر اشیاء کے اندر جس الکحل کا استعمال کیا جاتا ہے وہ انگور یا شراب سے نہیں بنائی جاتی(کیونکہ اس طرح ان اشیاء کی قیمت بہت بڑھ جاتی ہے )بلکہ دیگر اشیاء جیسے گنا، جو،گندم ، مکئی ، شہد، انجیر و دیگر نشاستہ دار اشیاءسے بنائی جاتی ہے۔(ماخوذ از کتاب ”جدید مسائل پر علماء کی رائیں اور فیصلے“، 1/99)
ایسی اشیاء سے بنائی ہوئی شراب کے حرام و ناپاک ہونے کے متعلق ہمارے ائمہ کی آراء مختلف ہیں۔ اصل مذہب جو شیخین یعنی امام اعظم ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی کا مذہب ہے وہ یہ ہے کہ یہ شرابیں ناپاک نہیں ہیں، یونہی اتنی مقدار میں ان کا استعمال جائز ہے کہ جس میں نشہ نہ آئے، ہاں نشہ کی حد تک ان کا استعمال حرام ہے۔اورامام محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس طرح کی ہر شراب کے قطرے قطرے کو حرام اور ناپاک قرار دیتے ہیں ۔ہمارے مشائخ و فقہاء کرام نے سد ذرائع کے طور پر امام محمد کے قول پر فتوی دیا تاکہ مفاسد کا دروازہ سرے سے بند ہو جائے اور یہی حکمت دین و مصلحت کاتقاضا تھا۔
لیکن سائنسی ترقیات کے اس دور میں الکحل کا استعمال نشے کےعلاوہ دیگر کئی مقاصد کے لئے بہت ساری صنعتوں میں بڑے پیمانے پر ہونے لگاہے مثلاصفائی ستھرائی کا سامان (Cleaning Products)، رنگ وروغن(paints)، کاسمیٹکس (Cosmetics)، ادویات سازی (pharmaceutical) وغیرہ میں اور ایسی بے شمار چیزوں کا استعمال مسلمانوں کے عوام وخواص میں عموم بلوی کی حدتک رائج ہوچکا ہے۔ایسی صورت حال میں ان تمام اشیاء کے ناپاک اور ممنوع و ناجائز ہونے کا حکم دینا عامہ امت مسلمہ کو گنہگار قرار دینااور مشقت و حرج میں ڈالنا ہے جو ہماری اس یُسر و آسانی والی شریعت کے تقاضوں کے خلاف ہے خصوصا اس مسئلے میں کہ جہاں رخصت کے کئی پہلو موجود ہیں مثلا
()اس مسئلے میں اصل مذہبِ شيخين یعنی امام اعظم اور امام ابو یوسف علیھما الرحمۃ کے قول کے مطابق یہ تمام اشیاء پاک اور حلال ہیں()اوریہ مذہب صرف ان دو ائمہ کا نہیں بلکہ جمہور صحابہ کرام سے مروی ہےجیسا کہ امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنے رسالے ”الفقہ التسجیلی فی عجین النارجیلی“بے شمار روایات و آثار سے ثابت کیا۔() پھرمتون مذہب حنفیہ میں اسی مذہب کو اختیار کیا گیا اور بہت سے مشائخ و ائمہ نے اسی کو ترجیح دی()جس حکمت و مصلحت کے تحت فقہاء نے امام محمدعلیہ الرحمۃ کا قول اختیار کیا وہ بھی یہاں موجود نہیں۔ ()نیز عموم بلوی رخصت اور تخفیف کا تقاضا کرتا ہے حتی امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے اگرچہ اپنے فتاوی میں امام محمد کے قول پر فتوی دیتے ہوئے سپرٹ کو ناجائزو ناپاک قرار دیا لیکن اسپرٹ والی بعض چیزوں کے متعلق جب یہ ملاحظہ فرمایا کہ اس میں عموم بلوی ہو چکا تو وہاں آپ نے شیخین کے مذہب پر عمل کرتے ہوئے ایسی اشیاء کے پاک ہونے کا فتوی بھی صادر فرمایا۔ اور پھر انہیں بنیادوں پرمجلس شرعی اشرفیہ کے علماء کرام نے بھی عموم بلوی اور دفع حرج کی خاطر الکحل ملی ادویات کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔
لہذااس تفصیل کے مطابق عموم بلوی اور دفع حرج کی خاطر فی زمانہ الکحل آمیز ادویات اور خارجی استعمال کی تمام اشیاء کے پاک اورجائز الاستعمال ہونے کا حکم ہے۔
امام اہلسنت اما م احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :” قول منصورومختار میں تاڑی وغیرہ ہرمسکرپانی کاقطر ہ قطرہ مثل شراب حرام ونارواہے اورنہ صرف حرام بلکہ پیشاب کی طرح مطلقاً نجاست غلیظہ ہے۔ یہی مذہب معتمد اوراسی پرفتوٰی ہے۔تنویرالابصارمیں ہے : حرمھا محمد مطلقا وبہ یفتٰی“
پھر مزید عبارات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ”اوراصل مذہب کہ شیخین مذہب رضی اﷲتعالی عنہما کاقول ہے اعنی طھارۃ المثلث العنبی والمطبوخ التمری والزبیبی وسائر الاشربۃ من غیرالکرم والنخلۃ مطلقا وحلھا کلھا دون قدر الاسکار۔
حاشایہ بھی قول ساقط وباطل نہیں بلکہ بہت باقوت ہے خوداصل مذہب یہی ہے اوریہی جمہورصحابہ کرام حتی کہ حضرات اصحاب بدررضی اﷲتعالیٰ عنہم سے مروی ہے، یہی قول امام اعظم ہے ۔ “(فتاوی رضویہ ،جلد25،صفحہ108-116،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے پڑیا کے اس رنگ کے متعلق سوال ہوا جس میں سپرٹ ملی ہوتی تھی تو آپ نے اپنے دور میں عموم بلوی اور دفع حرج کی اس کے پاک ہونے کا فتوی دیاچنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں: ”بادامی رنگ کی پُڑیا میں تو کوئی مضائقہ نہیں اور رنگت کی پُڑیا سے ورع کے لئے بچنا اولی ہے پھر بھی اس سے نماز نہ ہونے پر فتوی دینا آج کل سخت حرج کا باعث ہے۔والحرج مدفوع بالنص وعموم البلوی من موجبات التخفیف لاسیما فی مسائل الطھارۃ والنجاسۃ۔
اس مسئلہ میں مذہب حضرت امام اعظم وامام ابویوسف رضی اللہ تعالی عنہما سے عدول کی کوئی وجہ نہیں، ہمارے ان اماموں کے مذہب پر پُڑیا کی رنگت سے نماز بلاشبہ جائز ہے۔ فقیر اس زمانے میں اسی پر فتوٰی دینا پسند کرتا ہے۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد4،صفحہ389،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
ایک اور مقام پر اس مسئلے میں رخصت و تخفیف کی وجوہ کو بھی بیان فرمایا چنانچہ لکھتے ہیں :” پڑیا کی نجاست پر فتوی دیئے جانے میں فقیر کو کلام کثیر ہے ، ملخص اُس کا یہ کہ پُڑیا میں اسپرٹ کا ملنا اگر(۱)بطریقہ شرعی ثابت بھی ہو تو(۲) اس میں شک نہیں کہ ہندیوں کو اس کی رنگت میں ابتلائے عام ہے اور عموم بلوی نجاست متفق علیہا میں باعث تخفیف۔حتی فی موضع النص القطعی کمافی ترشش البول قدررؤس الابرکما حققہ المحقق علی الاطلاق فی فتح القدیر۔
نہ کہ محلِ(۳) اختلاف میں جو زمانہ صحابہ سے عہدِ مجتہدین تک برابر اختلافی چلاآیا نہ کہ(۴) جہاں صاحبِ مذہب حضرت امام اعظم وامام ابویوسف کا اصل مذہب طہارت ہو اور وہی امام ثالث امام محمد سے بھی ایک روایت اور اُسی کو امام طحاوی وغیرہ ائمہ ترجیح وتصحیح نے مختار ومرجح رکھا ہو نہ کہ(۵) ایسی حالت میں جہاں اُس مصلحت کو بھی دخل نہ ہو جو متأخرین اہلِ فتوٰی کو اصل مذہب سے عدول اور روایت اخرٰی امام محمد کے قبول پر باعث ہوئی نہ کہ(۶) جب مصلحت اُلٹی اس کے ترک اور اصل مذہب پر افتا کی موجب ہو تو ایسی جگہ بلاوجہ بلکہ برخلاف وجہ مذہب مہذب صاحب مذہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ترک کرکے مسلمانوں کو ضیق وحرج میں ڈالنا اور عامہ مومنین ومومنات جمیع دیار واقطار ہندیہ کی نمازیں معاذاللہ باطل اور انہیں آثم ومصر علی الکبیرہ (گناہ گار اور گناہِ کبیرہ پر اصرار کرنے والا۔ ت) قرار دینا روشِ فقہی سے یکسر دُور پڑنا ہے وباللہ التوفیق۔“(فتاوی رضویہ ،جلد4،صفحہ381،رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)
کتاب ”مجلس شرعی کے فیصلے “ میں الکحل آمیز ادویات کے متعلق مجلس شرعی اشرفیہ کے علماء کرام کا فیصلہ یوں بیان کیاگیاہے :”اس عہد میں (اسپرٹ یا الکحل آمیز ) انگریزی دواؤں کا استعمال عموم بلوی کی حد تک پہنچ چکا ہے ، ...... فیصل بورڈ کے ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ مذکورہ انگریزی دواؤں کے استعمال کی بھی بوجہ عموم بلوی دفع حرج کے لئے اجازت ہے، البتہ یہ اجازت انہیں صورتوں کے ساتھ خاص ہے جن میں ابتلائے عام اورحرج متحقق ہو۔“(مجلس شرعی کے فیصلے، صفحہ120،مطبوعہ دار النعمان)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم