بچے کو اللہ کا لال کہنا کیسا؟

بچے کو اللہ کا لال کہنے کا حکم

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

جب بچے بہت زیادہ تنگ کرتے ہیں تو عورتیں اسے اللہ کا لال کہہ دیتی ہیں تو اس طرح کہنا کیسا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

بچوں کو اللہ کا لال کہنا جائز نہیں، کیونکہ اس کا ایک معنی ہے: ”بیٹا“، اور اللہ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی بیٹا ہو۔ جیسا کہ علمائے کرام نے غلام اللہ کہنے کو ناجائز فرمایا کہ اس کا حقیقی معنی ”لڑکا“ ہے۔

اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ) ترجمہ کنز العرفان: نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔  (القرآن، پارہ30، سورۃ الاخلاص، آیت: 3)

بہارِ شریعت میں ہے ”غلام کی اضافت اللہ تعالی کی طرف کرنا اور کسی کو غلام اللہ کہنا، ناجائز ہے کیونکہ غلام کے حقیقی معنی پِسر اور لڑکا ہیں، اللہ (عزوجل) اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی لڑکا ہو۔“ (بہارِ شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ604، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

لال کے معنی کے متعلق فیروز اللغات میں ہے ”لال: سرخ۔۔۔ دہکتا ہوا۔۔۔ گونگا بہرا۔۔۔ بیٹا۔فرزند۔“ (فیروز اللغات، صفحہ1204، فیروز سنزز، لاہور)

رد المحتار میں ہے

”مجرد ایھام المعنیٰ المحال کاف فی المنع“

 ترجمہ: صرف معنی محال کا وہم ممانعت کے لئے کافی ہے۔  (رد المحتار، جلد9، صفحہ652، مطبوعہ: کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-4527

تاریخ اجراء:19جمادی الثانی1447ھ/11دسمبر2025ء