اللّٰہ پاک کو چھیننے والا کہنا کیسا؟

اللہ تعالیٰ کے لیے چھیننے کا لفظ استعمال کرنا کیسا؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے كے بارے میں کہ اللہ رب العزت کے لیے لفظ ”چھین“ استعمال کر سکتے ہیں مثلا یوں کہنا کہ اللہ رب العزت نے زید کی آنکھیں چھین لی؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ذات باری تعالی کے لئے لفظِ چھیننا کے استعمال میں فی نفسہٖ کوئی حرج نہیں۔ قرآن وحدیث میں اس کے ہم معنی الفاظ واردہوئے ہیں، نیز علمائے دین نے بھی ذات باری تعالیٰ کےلئے اس لفظ کا استعمال فرمایا ہے، علاوہ ازیں ہمارے عرف میں یہ جملہ بلا نکیر زبان زدِ عام ہے کہ ”خدا جب دین لیتا ہے، تو عقل چھین لیتا ہے۔“

اگر یہاں یہ کہا جائے کہ لغت میں لفظ ”چھیننا“ بُرے مثلا ”دوسرے کا مال غصب کرلینے اور ہڑپ لینے وغیرہ“ معانی کے لئے بھی آتا ہے، (فرہنگ آصفیہ، ص 149، اردو سائنس بورڈ لاہور) اور جب کسی لفظ کے اچھے اور بُرے دونوں معانی ہوں،اور اس سے بُرے معنی کی طرف بھی ذہن جا تا ہو، تو اس لفظ کا استعمال ذات باری تعالیٰ کے لئے ممنوع قرار پاتا ہے۔

تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ قاعدہ وہاں جاری ہوتا ہے، جہاں وہ لفظ شرع میں وارد نہ ہو، اگر وہ لفظ شرع میں وارد ہے، تو ذات باری تعالیٰ کے لئے اس لفظ کا استعمال درست ہوتا ہے، اور اس سے باری تعالیٰ کے شایانِ شان معنی مراد لینا متعین ہوتا ہے، لہذا جب یہ لفظ ذات باری تعالیٰ کے لئے استعمال کیا جائے گا تو اِس سے بُرے معانی کی بجائے اُس کے شایانِ شان معنی ”بطور سَطوت و غلبہ کسی چیز کا لے لینا“ مراد ہوگا۔

قرآن و ترجمۂ قرآن کی تصریح:

قرآنِ مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت کے لئے ”تنزع“ کا لفظ وارد ہوا ہے، اور اس کا ترجمہ سلب کرلینا اور چھیننا ہے، چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ

ترجمہ کنز الایمان: یوں عرض کر اے اللہ ملک کے مالک تو جسے چاہے سلطنت دے اور جسے چاہے سلطنت چھین لے۔ (سورہ آل عمران، آیت 26)

مفرداتِ امام راغب میں ”نزع“ کے معنی کے متعلق فرمایا:

سلب، قال تنزع الملک ممن تشاء

اس کا ایک معنی چھیننا ہے، ارشادِ خدواندی ہے، تو جس سے چاہے سلطنت چھین لے۔ (مفردات امام راغب، ص 488، دار المعرفہ بیروت)

احادیث میں وارد لفظ سلب کی چند تصریحات:

کنز العمال میں ہے:

إذا أراد اللہ إنفاذ قضائه و قدره سلب ذوي العقول عقولهم حتى ينفذ فيهم قضاؤه و قدره فإذا أمضى أمره رد إليهم عقولهم و وقعت الندامۃ

اللہ جب اپنی قضا وقدر کو نافذ کرنا چاہتا ہے، تو عقلمندوں سے ان کی عقلیں چھین لیتا ہے، یہاں تک کہ ان کے متعلق قضا و قدر نافذ ہوجائے، اور جب یہ معاملہ ہوجاتا ہے، تو ان کی عقلیں انہیں واپس کردیتا ہے، پھر ان لوگوں کوندامت ہوتی ہے۔ (کنز العمال، ج 01، ص 109، مؤسسة الرسالة)

جامع الصغیر میں ہے:

إن الرجل لا يزال في صحة رأيه ما نصح لمستشيره فإذا غش مستشيره سلبه اللہ تعالى صحة رأيه

بے شک کوئی شخص اس وقت تک اپنی رائے کی درستی پر رہتا ہے جب تک وہ خود سے مشورہ مانگنے والے کا خیر خواہ رہے، لیکن جب وہ اس سے دھوکہ کرتا ہے، تو اللہ اس سے اس کی رائے کی درستی چھین لیتا ہے۔ (جامع الصغیر، ص 209، رقم: 1449، المكتب الاسلامي)

مصنف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہما سے جہنم کی ایک وادی کے متعلق پوچھا کہ اس میں کون جائے گا، اس کے جواب میں آپ نے فرمایا:

من سلب اللہ أنفه و عينيه و أصرع خده إلى الأرض

جس کی ناک اور آنکھیں اللہ نے چھین لی، اور جس کے رخساوں کو زمین پر لگادیا۔ (المصنف لابن ابی شیبہ، ج 07، ص 56، رقم: 38180، دار التاج - لبنان)

علمائے دین کے استعمال کی تصریحات:

سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں: ”خداجب دین لیتا ہے، عقل پہلے چھین لیتا ہے“۔ (فتاوی رضویہ، ج 15، ص 456، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”جسے جو چاہے دے اور جو چاہے چھین لے“۔ (بہار شریعت، ج 01، ص 23، مکتبۃ المدینۃ کراچی)

علامہ عبد المصطفی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”اللہ تعالیٰ ہی دولت دیتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے پل بھر میں دولت چھین بھی لیتا ہے“۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 198، مکتبۃ المدینۃ کراچی)

کسی لفظ کے اچھے اوربُرے دونوں معانی ہوں، تو اس کا اطلاق ذات باری تعالیٰ کے لئے اس وقت ممنوع ہے جبکہ وہ شرع میں وارد نہ ہو، جیساکہ فتاوی شارح بخاری میں ہے: ”جس لفظ کے چند معنی ہوں اور کچھ معنی خبیث ہوں اور وہ لفظ شرع میں وارد نہ ہو، تو اس کا اطلاق اللہ عزوجل پر منع ہے۔“ (فتاوی شارح بخاری، ج 01، ص 233، مکتبۃ برکات المدینۃ)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتویٰ نمبر: HAB-0552

تاریخ اجراء: 16 شوال المکرم 1446ھ / 15 اپریل 2025ء