مغرب کے بعد بچوں کو کام کے لیے گھر سے باہر بھیجنا

بچوں کو مغرب کے بعد کام سے باہر نکالنا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

بچوں کو مغرب سے عشا تک گھر سے باہر نہیں نکالنا چاہئے، معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر بچہ سمجھدار ہو، سات آٹھ سال کا ہو، تو کیا گھر کے کام کاج کے لئے اس کو اس وقت میں گھر سے باہر بھیج سکتے ہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جب رات کی ابتدا ہویعنی مغرب کا وقت شروع ہو تو بچوں کو باہر جانے سے روکنے کا حکم حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ یہ شیاطین کے منتشر ہونے کا وقت ہے اگر اس وقت بچے باہر جائیں گے تو ان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ یہ حکم وجوبی نہیں ہے، لہٰذا سمجھدار بچوں کو کام کاج مثلاً دکان سے سامان لانے وغیرہ کے لیے بھیجنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ عافیت اسی میں ہے کہ بلاضرورت اس وقت نہ بھیجا جائے۔

یہ بھی یاد رہے کہ رات کو جب باہر لوگوں کی آمد و رفت بند ہو جائے اس وقت بلا ضرورت بڑوں کو بھی رات میں نہیں نکلنا چاہئے اور وجہ وہی ہے کہ اس وقت بلائیں منتشر ہوتی ہیں۔

صحیح مسلم شریف میں حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”لا ترسلوا ‌فواشيكم وصبيانكم إذا غابت الشمس حتى تذهب فحمة العشاء، فإن الشياطين تنبعث إذا غابت الشمس حتى تذهب فحمة العشاء“

یعنی اپنے جانور اور بچے نہ چھوڑو جب سورج ڈوب جائے حتیٰ کہ رات کی سیاہی جاتی رہے کیونکہ جب سورج ڈوب جاتا ہے تو شیاطین چھوڑ دیئے جاتے ہیں حتیٰ کہ رات کی یہ سیاہی جاتی رہے۔ (صحیح مسلم، حدیث 2013، صفحہ 665، مطبوعہ: ریاض)

اس کی شرح بیان کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مغرب و عشاء کے درمیان اپنے جانور اور بچے کھلے نہ پھرنے دو۔ یعنی رات کے شروع حصہ کی سیاہی ختم ہوجاوے اور اس کی اصلی سیاہی آجاوے، مغرب عشاء کے درمیان آسمان پر سیاہی ہوتی ہے مگر مغربی کنارہ پر سرخی یا سفیدی ہوتی ہے۔‘‘ (مرأۃ المناجیح، جلد06، صفحہ 94، 96، لاھور)

فضائل دعا میں ہے: ’’ أقول: اس تقدیر پر اور بہت لوگ ایسے نکل سکتے ہیں جو خود کردہ کا علاج ڈھونڈتے ہوں مثلاً: جو بغیر کسی سخت مجبوری کے رات کو ایسے وقت گھر سے باہر نکلے کہ لوگ سو گئے ہوں پاؤں کی پہچل(پاؤں کی آہٹ/آواز) راستوں سے موقوف ہوگئی ہو۔ صحیح حدیث میں اس سے ممانعت فرمائی کہ اس وقت بلائیں منتشر ہوتی ہیں۔ ‘‘ (فضائل دعا، ص165، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2285

تاریخ اجراء: 14ذوالقعدۃ الحرام1446 ھ/12مئی2025 ء