ایزی پیسہ پر قرعہ اندازی جائز نہیں؟

ایزی پیسہ پر جوئے والی اسکیم کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ایزی پیسہ پر ایک سکیم ہے کہ ایک روپیہ ادا کر کے بائیک، موبائل وغیرہ کی قرعہ اندازی میں شامل ہوتے ہیں، اور پھر قرعہ اندازی سے کسی ایک کی بائیک وغیرہ نکلتی ہے، اور بقیہ کو کچھ نہیں ملتا ،وہ جو ایک روپیہ لگایا ہوتا ہے، وہ بھی واپس نہیں ملتا، تو اس حوالے سے بتا دیں کہ کیا یہ ایک روپیہ دے کر قرعہ اندازی میں شامل ہونا جائزہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

ایک روپیہ دے کر اس قرعہ اندازی میں شامل ہونا ،ناجائز وگناہ ہے کیونکہ یہ شرعی لحاظ سے جوا ہے کہ قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے گا، اس کو وہ بائیک وغیرہ مل جائے گی، اور اس کوفائدہ ہو جائے گا، اور بقیہ کے پیسے ضائع ہو جائیں گے، جبکہ شرعی لحاظ سے اپنے پیسوں کو يوں محل خطر پر پیش کرنا جوا ہے جو کہ ناجائز و گناہ اور جہنم میں لیجانے والا کام ہے۔

جوئے کے متعلق اللہ پاک کا ارشاد ہے:

﴿یٰۤاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ اْلاَ نْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾

ترجمہ: اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے ناپاک، شیطانی کام ہیں تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ۔ (پارہ 7، سورۃ المائدۃ، آیت 90)

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے

أن نبي اللہ صلى اللہ عليه و سلم: نهى عن الخمر و الميسر

 ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے شراب اور جوئے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن ابو داؤد، جلد 2، صفحہ 163، مطبوعہ: لاہور)

حاشیہ شلبی میں ہے

أن اللہ تعالى حرم القمار

ترجمہ:اللہ عزوجل نے جوئے کو حرام فرمایا۔ (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق و حاشية الشلبي، جلد 6، صفحہ 31، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی میں ہے

القمار مشتق من القمر الذی یزداد و ینقص، سمی القمار قماراً، لان کل واحد من المقامرین ممن یجوز ان یذہب مالہ الی صاحبہ، و یستفیدمال صاحبہ، فیزداد مال کل واحد منہما مرۃ و ینتقص اخری، فاذا کان المال مشروطاً من الجانبین کان قماراً، و القمار حرام، و لان فیہ تعلیق تملیک المال بالخطر، و انہ لا یجوز

 ترجمہ: قمار (جوا) قمر سے مشتق (نکلا) ہے، جو بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے، قمار کو قمار اس لیے کہا گیا کہ مقامرین (جوا کھیلنےوالوں) میں سے کوئی بھی اپنے ساتھی کا مال لے جاسکتا ہے اور دوسرے کے مال سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے پس ان میں سے ہر ایک کا مال کبھی بڑھ جاتا ہے اور کبھی کم ہوجاتا ہے، پس جب مال دونوں جانب سے مشروط ہو تو یہ قمار ہے اور قمار حرام ہے اور اس لئے کہ اس میں مال کوحاصل کرنے میں خطرے پر معلق کرنا پایا جاتا ہے اوریہ ناجائزہے۔ (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، جلد 5، صفحہ 323،دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین علیہ الرحمہ فرماتےہیں: "ایسی کوئی لاٹری جائز نہیں جس میں قرعہ اندازی کرنے سے اگر کسی ممبر کانام نہ نکلے تو اس کا اپنا روپیہ ختم ہوجائے گا اور جس کا نام نکلا وہ دوسروں کا روپیہ حاصل کرلے یہ ’’جوا‘‘ ہے اس قرعہ اندازی میں نام نکلنے والے کو عمرہ پر بھیجاجائے یا نقد روپیہ اسے دیا جائے۔" (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 310، مطبوعہ کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4333

تاریخ اجراء: 22 ربیع الآخر 1447ھ / 16 اکتوبر 2025ء