
دارالافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
ہمارے یہاں شادی کے موقع پر غیر عورتوں کا دولہا کے ساتھ تصاویر کھنچوانا عام ہے، بلکہ بڑے شوق سے کھنچواتی ہیں۔ اب ایک شخص چاہتا ہے کہ وہ اس سے بچے مگر یہ بڑا مشکل ہے۔ منع کرے تو رشتہ دار ناراض ہوتے ہیں۔ اور اگر کسی طرح منع کر بھی دے تو سسرال والے کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں آنے پر تو ہمارے رشتہ داروں کے ساتھ تصاویر کھنچوانی پڑیں گی۔ اور کیمرہ مین بھی مرد ہوتے ہیں۔ تو اس صورت حال میں کتنی رعایت مل سکتی ہے؟ اپنی محرم کے ساتھ، دیگر گھر والوں کے ساتھ، محلے کی عورتوں کے ساتھ، سسرال والوں کے ساتھ۔ ان میں سے جہاں تک رعایت مل سکے، بتائیے۔ رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شادیوں پر مرد و عورت کے اختلاط کے ساتھ تصویر کشی کا جو طریقہ کار رائج ہے یہ مرد و عورت کے اختلاط، بے تکلفی، بے حیائی اور بے پردگی جیسے کئی حرام کاموں کا مجموعہ ہوتا ہے، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر خاندان کے بڑے افراد یا کوئی اور رشتے دار کسی خلافِ شرع کام کا حکم دیں، تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی بلکہ شرعی حکم پر ہی عمل کیا جائے گا چاہے اس سے کوئی ناراض ہو یا نہ ہو۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لا طاعۃ فی المعصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف“
ترجمہ: اللہ عزوجل کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں، بلکہ مخلوق کی اطاعت تو فقط بھلائی والے کاموں میں ہی جائز ہے۔ (صحیح البخاری، جلد6، صفحہ2649، حدیث:6830، مطبوعہ: دمشق)
فتاوی رضویہ میں ہے ”اللہ عزوجل کی معصیت میں کسی کا اتباع درست نہیں۔“ (فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ 188، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”شرعِ مطہر نے ہر ایک کے حقوق مقرر کردئیے ہیں، جن کا پورا کرنا لازم ہے اور خود شرع کے بھی حقوق ہیں جو سب پر مقدم ہیں ۔۔۔جس کو شرع مطہر نے ناجائز قرار دیا ہے اس میں اطاعت نہیں کہ یہ حقِ شرع ہے اور کسی کی اطاعت میں احکامِ شرع کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی کہ معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں ہے۔ حدیث میں ہے: لا طاعۃ للمخلوق فی معصیۃ الخالق “ ترجمہ: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی ۔ (فتاوٰی امجدیہ، جلد4، صفحہ198، مکتبہ رضویہ،کراچی)
مردوں کو اجنبی عورتوں کے پاس جانے کی ممانعت کے متعلق حدیث پاک میں ہے
”عن عقبة بن عامر، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال :ایاکم والدخول علی النساء“
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اجنبی عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ (شعب الايمان، جلد7، صفحہ309، حدیث:5054، مطبوعہ: الرياض)
مرد کے اجنبی عورت کو دیکھنے کے متعلق علامہ بُرہان الدین مَرْغِینانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
”و لا یجوز ان ینظر الرجل الی الاجنبیۃ“
ترجمہ : مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے۔ (الھدایۃ، جلد4، صفحہ368، دار احياء التراث العربي، بیروت)
عورت کے بے پردگی کرنے کا حکم بیان کرتے ہوئے سیّدی اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں: ”بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو، جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ یا گلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز، تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقاً حرام ہے، خواہ وہ پیر ہو یا عالم یا عامی جوان ہو، یا بوڑھا۔“ (فتاویٰ رضویہ، جلد22، صفحہ239، 240، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-4323
تاریخ اجراء: 20ربیع الثانی1447 ھ/14اکتوبر2025 ء