ہیلتھ سکریننگ ڈسکاؤنٹ کارڈ کا حکم

ہیلتھ سکریننگ ڈسکاؤنٹ کارڈ(Health Screening discount card) کا شرعی حکم

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید ایک پرائیویٹ ہسپتال سے علاج معالجہ کرواتا ہے۔ ہسپتال پلاٹینم، گولڈن اور سلور ہیلتھ سکریننگ ڈسکاؤنٹ کارڈ ((Health Screening discount card جاری کرتا ہے۔جن کی سالانہ سبسکرپشن فیس بالترتیب بارہ ہزار، نو ہزار اور پانچ ہزار روپے ہے۔ جو شخص یہ کارڈ خرید لیتا ہے تو اسے ہسپتا ل سے کروائے جانے والے تمام میڈیکل ٹیسٹ اور ڈاکٹر چیک اپ فیس پر بالترتیب اٹھارہ، چودہ اور سات فیصد ڈسکاؤنٹ ملے گا۔آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ ہیلتھ سکریننگ ڈسکاؤنٹ کارڈ خریدنا جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سوال میں بیان کردہ ہیلتھ سکریننگ ڈسکاؤنٹ کارڈزHealth Screening) discount cards) خریدنا جائز نہیں ہے، بلکہ سخت حرام و گناہ ہے۔

اس مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ ڈسکاؤنٹ کارڈز خریدنے کے لئے جو پیسے دیئے جاتے ہیں، حقیقت میں ان سے کارڈ خریدنا مقصود نہیں ہوتا، بلکہ  خریدنے والے کا مقصد ان پیسوں کے عوض آئندہ اس ہسپتال کے میڈیکل ٹیسٹ اور ڈاکٹروں کی چیک اپ فیس کو  سستا حاصل کرنے کا حق حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ہسپتال والے اس کارڈ ہولڈر کو ٹیسٹ اور ڈاکٹر کی چیک اپ فیس کی سہولت سستی فراہم نہ کریں، تو کوئی بھی شخص ان ہیلتھ ڈسکاؤنٹ کارڈز کو چند روپوں کے بدلے بھی نہیں خریدے گا، اور چونکہ شرعی اعتبار سے عقود کا دارومدار مقاصد اور معانی پر ہوتا ہے نہ کہ ظاہری الفاظ پر، تو حاصل یہ نکلا کہ یہ رقم ہسپتال کی مذکورہ سہولیتں سستی حاصل کرنے کے لئے دی جارہی ہے اور اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے کسی صاحب ِاختیار کو مال دینا شرعی اعتبار سے رشوت کہلاتا ہے، جو  کہ ناجائز وحرام ہے، لہذا رشوت کی قبیل سے ہونے کی وجہ سے مذکورہ ہیلتھ سکریننگ ڈسکاؤنٹ کارڈز خریدنا ناجائز وگناہ ہے۔

سنن ابن ماجہ کی حدیث مبارکہ میں ہے:

عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم: لعنة الله على الراشي والمرتشي

 ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ (سنن ابن ماجہ، ج 2، ص 775، رقم الحدیث 2313، دار إحياء الكتب العربية)

مسند بزار میں ہے:

”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الراشي والمرتشي في النار

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا، دونوں جہنمی ہیں۔ (مسند بزار، ج 3، ص 247، رقم الحدیث 1037، مكتبة العلوم والحكم، بیروت)

رشوت کی تعریف بیان کرتے ہوئے علامہ ابن نجیم حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ بحر الرائق میں فرماتے ہیں:

الرشوة۔۔۔ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره، ليحكم له أو يحمله على ما يريد

ترجمہ: رشوت وہ ہے جسے کوئی شخص حاکم وغیرہ کواس لئے دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کرے یادینے والے کے مقصود پر حاکم کو ابھارے۔ (بحر الرائق، ج 6، ص 285، دار الكتاب الإسلامي، بیروت)

المبسوط للسرخسی میں ہے: والرشوة حرام ترجمہ: رشوت کا لین دین حرام ہے۔ (المبسوط للسرخسی، ج 20، ص 32، دار المعرفۃ، بیروت)

امام اہلسنت، الشاہ، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”رشوت لینا مطلقا حرام ہے، کسی حالت میں جائزنہیں، جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے رشوت ہے، یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 23، ص 597، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

عقود میں معانی کا اعتبار ہوتا ہے، الفاظ کا اعتبار نہیں ہوتا۔بدائع الصنائع میں ہے:

ان العبرۃ فی العقود لمعانيها لا عين الألفاظ

ترجمہ: عقود میں ان کے معانی کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ عین الفاظ کا۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الشرکۃ، بیان شرائط جوازانواع الشرکۃ، ج 7، ص512، مطبوعہ کوئٹہ)

ہیلتھ سکریننگ ڈسکاؤنٹ کارڈ فی نفسہٖ خریدنا مقصود نہیں ہوتا، جیساکہ اسی طرح کے ایک ٹکٹ کی خریداری کے بارے فتاوی رضویہ شریف میں ہے: ”۔۔۔ ٹکٹ کی بیع کانام لیا، مگر اس پر وہ عبارت چھاپی جس نے صاف بتادیا کہ یہ مبیع نہیں، ایک اقراری سند ہے جس کے ذریعہ سے ایک روپے والا بعد موجود شرائط تیس روپے کا مال تاجر سے لے سکے گا، اگر ٹکٹ ہی بکتا، تو خریدار کیا ایسے احمق تھے کہ روپیہ دے کر دو انگل کا محض بیکار پرچہ کاغذ مول لیتے، جسے کوئی دو کوڑی کو بھی نہ پوچھے گا، لاجرم بیع وغیرہ سب بالائے طاق ہے۔۔۔الخ  (فتاوی رضویہ، جلد17، صفحہ330، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

ایک دوسری جگہ امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا: ”زید نے نوآنے قیمت کے ایک ٹکٹ ۹/ آنے سے لے کر سرکار میں داخل کیا بعد ازاں سرکار نے اسی زید سے سوا روپیہ لے کر اس کو چارٹکٹ اور دے دئے، بعد اس کے زید نے وہی چار ٹکٹ وہی سوا روپیہ بیچ کر پھر سرکار میں داخل کیا، بعد روپیہ داخل کرنے کے سرکار نے اسی روپیہ کے دو فی قیمت کا ایک کپڑا زید کو دے دیا اب یہ معاملہ مطابق شرح شریعت کے جائز ہے یانہیں ؟“

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ” یہ صورت شرعا باطل و ناجائز ہے کہ وہ ٹکٹ جو اس کے ہاتھ بیچا جاتا ہے اور یہ دوسروں کے ہاتھ بیچتا ہے اصلا مال نہیں، تو رکنِ بیع کہ: مبادلۃ المال بالمال ہے، اس میں متحقق نہیں۔ اس کی حالت مٹی سے بھی بدتر ہے، مٹی پھر بھی کام آتی ہے، اور یہ کسی مصرف کا نہیں ۔۔۔ الخ (فتاوی رضویہ، ج 17، ص167، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: محمد ساجد عطاری

مصدق: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: NRL- 0328

تاریخ اجراء: 27محرم الحرام1447 ھ/23جولائی2025ء