اپنا یا فیملی کا لائف انشورنس کروانے کا شرعی حکم

 

اپنا یا اپنی فیملی کا لائف انشورنس کروانا کیسا؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

اگر کوئی اپنا یا اپنی فیملی کا لائف انشورنس کرواتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

لائف انشورنس کروانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس میں پالیسی ہولڈر کی طرف سے جمع کروائی گئی رقم کی شرعی حیثیت قرض کی ہے جس پر اسے نفع ملنا مشروط ہوتا ہے حالانکہ قرض پر مشروط نفع سود ہے اور سود حرام اور جہنم میں  لے جانے والا کام ہے۔قرآن و حدیث میں اس پر  سخت وعیدیں آئی ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اوراللہ نے حلال کیابیع اورحرام کیاسود۔(سورة البقرۃ ،آیت نمبر275 )

حدیث پاک میں ہے:

”کل قرض جر منفعة فھو ربا “

ترجمہ: ہروہ قرض جومنفعت لے آئے وہ(منفعت)سودہے۔(کنز العمال،جلد 6، صفحہ 99 ،حدیث15512، دارالکتب العلمیہ بیروت)

اگر کوئی انشورنس کروا لے تو اس پر لازم ہے کہ اس معاملے کو فوراً ختم کرے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے۔ نیز لائف انشورنس کی مد میں جتنی رقم جمع کروائی ہو صرف اتنی رقم واپس لی جا سکتی ہے ، اضافے والی سودی رقم لینا حلال نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب:مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-2194

تاریخ اجراء:16شعبان المعظم1446ھ/15فروری2025ء